اسلام آباد(سچ خبریں)اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ سماعت کے دوران عدالت کچھ بھی طلب کر سکتی ہے اور اگر عدالت نے قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے منٹس طلب کیے تو وہ عدالت میں پیش کردیے جائیں گے۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ کمیٹی کے اعلامیے کی بے پناہ اہمیت ہے، اس اعلامیے کی روشنی میں مراسلے پر متعلقہ ملک کو سفارتی جواب دیا گیا، قومی سلامتی کمیٹی کی ہدایات اور سفارشات کی روشنی میں سفارتی جواب دیا گیا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی ایک اہم فورم ہے، اس میں سروسز چیفس ہوتے ہیں، چیئرمین ہوتے ہیں، سیکیورٹی ایجنسی کے سربراہ ہوتے ہیں، وزیر اعظم سربراہی کرتے ہیں، کمیٹی میں اہم وزرا ہوتے ہیں اور کمیٹی تمام معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لے کر قومی مفاد میں فیصلے کیے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا قومی سلامتی کمیٹی نے مراسلے کے معاملے کو دیکھ قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ہدایات جاری کیں کہ آپ اس معاملے پر سفارتی ردعمل جاری کریں اور ان کے کہنے پر دفتر خارجہ نے سفارتی ردعمل جاری کیا۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض کیا، اپوزیشن کی جانب سے فل کورٹ کی تشکیل کا اصرار جج صاحبان نے مسترد کردیا، بینچ کی تشکیل چیف جسٹس کا اختیار ہے، اپوزیشن کو عدلیہ کے احترام اور تقدس کو مدنظر رکھتے ہوئے سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیے، یہ بہت اہم کیس ہے، عدالتی کارروائی جاری ہے۔
صحافیوں کے اس سوال کے جواب میں کہ پی ٹی آئی کو موجودہ حالات تک لانے میں جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کا کیا کردار ہے، شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ان کے کردار پر میں کوئی بات نہ ہی کروں تو بہتر ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے آئین و قانون کے منافی قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔
ایوانِ زیریں کا اجلاس ختم ہونے کے فوراً بعد وزیراعظم نے قوم سے مختصر خطاب کیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز صدر مملکت کو بھجوادی ہے۔
اس رولنگ کے کچھ دیر بعد ہی وزیر اعظم عمران خان نے صدر مملکت کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز بھیجی تھی۔
بعد ازاں صدر مملکت عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 58 (1) اور 48 (1) کے تحت وزیراعظم کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز کی منظوری دے دی تھی۔
متحدہ اپوزیشن نے اس پیش رفت کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کی قرارداد مسترد کیے جانے پر سپریم کورٹ سے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد بغیر ووٹنگ مسترد کیے جانے کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی صورت حال پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ازخود نوٹس لیا تھا۔
ابتدائی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے تھے کہ وزیراعظم اور صدر کے تمام احکامات سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے سے مشروط ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے ریاستی عہدیداروں کو کسی بھی ماورائے آئین اقدام سے روکتے ہوئے کہا تھا کہ سیاسی جماعتیں پرامن رہیں اور کوئی ماورائے آئین اقدام نہ اٹھایا جائے۔
خیال رہے کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد سامنے آنے والے سیاسی اتار چڑھاؤ میں حکومت کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے ہاتھ ترپ کا پتا ہونے کے دعوے کیے جاتے رہے تھے۔
تاہم 27 مارچ کو وزیراعظم کے ایک اقدام نے تحریک عدم اعتماد کے معاملے کو یکسر مختلف رنگ اس وقت دیا تھا جب ‘امر بالمعروف’ کے عنوان سے منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ایک کاغذ لہراتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ان کی حکومت کو گرانے کی تحریری طور پر دی گئی دھمکی ہے۔
مبینہ خط سامنے آنے کے بعد مختلف قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں چنانچہ حکومت نے اس مراسلے کو چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے پیش کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا اور اس معاملے پر غور کے لیے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بھی طلب کیا گیا تھا۔