اسلام آباد: (سچ خبریں) سائفر کیس میں سابق وزیراعظم و چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو خصوصی عدالت میں پیش کرنے سے اڈیالہ جیل حکام نے سیکیورٹی خدشات کے سبب معذرت کرلی، عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنایا کہ کیس کا اوپن ٹرائل اڈیالہ جیل میں ہی ہوگا۔
اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کی سماعت جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر، ایف آئی اے پراسیکیوٹر شاہ خاور اور ذوالفقار عباس نقوی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر سلمان صفدر نے کہا کہ آج 2 مختلف معاملات عدالت میں ہیں، ہمیں آج امید تھی کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو پیش کریں گے لیکن ابھی تک نہیں کیا گیا، مجھے کچھ تحفظات تھے کہ ہم بہت جلدی میں چل رہے ہیں۔
دوران سماعت اڈیالہ جیل حکام نے عدالت میں چیئرمین پی ٹی آئی کی پیشی سے متعلق رپورٹ پیش کردی، جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد ریمارکس دیے کہ جیل حکام کا کہنا ہے پیش نہیں کرسکتے۔
اڈیالہ جیل حکام کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ کے ساتھ اسلام آباد پولیس کی رپورٹ بھی منسلک کی گئی، رپورٹ میں کہا گیا کہ حساس اداروں اور پولیس رپورٹ کے مطابق سابق وزیر اعظم کی زندگی کو خطرات ہیں، اسلام آباد پولیس کو اضافی سیکیورٹی کے لیے خط لکھا، بتایا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو سنجیدہ نوعیت کے سیکیورٹی خدشات ہیں۔
سلمان صفدر نے کہا کہ ملزم کو عدالت کے سامنے پیش کرنا جیل حکام کی ذمہ داری ہے، جیل حکام ملزم کو عدالت کے سامنے پیش کرنا نظر انداز نہیں کر سکتے، جیل سماعت کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا ہے۔
انہوں نے سائفر کیس کا گزشتہ سماعت کا حکمنامہ پڑھ کر سنایا، انہوں نے کہا کہ ہم کہتے رہے کہ ان حالات میں ٹرائل نہ کریں، ہم یہ استدعا کرتے رہے کہ پہلے ٹرائل کہاں کرنا اس کو طے کر لیں، ہم جب بھی کچھ کہتے تھے بولا جاتے تھا کہ کوئی حکم امتناع ہے تو بتا دیں، کون سا ایسا کیس ہے جو جلدی میں ختم کر دیا جائے۔
سلمان صفدر نے مزید کہا کہ یہ جیسے بھی کریں ان کو آج چیئرمین پی ٹی آئی کو پیش کرنا ہوگا، کس انٹیلی جنس ایجنسی کی بنا پر یہ کہ رہے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے، جب ہم کہتے تھے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے تو کہتے تھے کہ جیسے بھی ہو پہنچیں، جیل سے عدالت تک کے سفر میں کوئی رکاوٹ ہے تو وہ بتا دیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج اسپیشل کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلوں کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، جیل سپرنٹنڈنٹ کا کون سا فائدہ ہے عمران خان کو اندر رکھنے میں؟ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد پولیس نے خط لکھ کر آگاہ کیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو سیکیورٹی خطرات ہیں، یہ خط سابق وزیر اعظم کی حد تک ہے، شاہ محمود قریشی کی حد تک نہیں ہے، شاہ محمود قریشی کو اب تک نہیں پیش کیا گیا۔
سلمان صفدر نے استدعا کی کہ اگر سیکیورٹی تھریٹ ہیں تو اس کیس پر سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی جائے، جیل میں کیس نہیں چل سکتا تو یہاں بھی یہ چلانا نہیں چاہ رہے تو ملزمان کو ضمانت دے دی جائے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ یہ ٹرائل کہاں چل سکتا ہے یہ بتا دیں؟ یہ ٹرائل یہاں پر نہیں چل سکتا اور نہ جیل میں چل سکتا ہے تو پھر کہا چل سکتا ہے؟
دریں اثنا شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے اپنے دلائل کا آغاز کیا، انہوں نے کہا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ کا خط ایف آئی اے پراسیکیوٹر شاہ خاور نے خود پڑھا ہے، شاہ محمود قریشی کو کیوں اب تک پیش نہیں کیا گیا؟
انہوں نے کہا کہ اب تو کوئی چارج فریم نہیں ہوا اور نہ کوئی نقل تقسیم ہوئی ہے پھر اندر کیوں رکھا ہوا ہے، آپ کا اپنا آرڈر تھا، جیل سپرنٹنڈنٹ کو کہیں میرے آرڈر پر عملدرآمد کروائیں نہیں تو نتائج بھگتیں۔
علی بخاری نے شاہ محمود قریشی کو عدالت میں پیش کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ یہ اوپن ٹرائل ہے ملزم کو عدالت میں پیش کرنا ضروری ہے، ملزم کو عدالت میں پیش کرنا قانونی ذمہ داری ہے، ملزمان کی پروڈکشن کروانا عدالت کی ذمہ داری ہے، اگر عدالتی احکامات نہیں مانے جاتے تو سرکاری ملازم کو جیل میں بھیجنے کا اختیار آپ کے پاس ہے۔
دورانِ سماعت دلچسپ معاملہ عدالت کے سامنے آیا جب وکلا نے توجہ دلائی کہ جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین کے ریڈر استفہام ولیمے کے اگلے روز عدالت پہنچ گئے ہیں۔
شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے استدعا کی کہ عدالت ریڈر کو جلدی چھٹی دے، کل ولیمہ ہوا ہے۔
سلمان صفدر نے کہا کہ اگر ریڈر جان پر کھیل کر عدالت آسکتا ہے تو چیئرمین پی ٹی آئی کیوں نہیں؟ جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے ریمارکس دیے کہ وہ جان پر کھیل کر نہیں آئے بلکہ جان بچانے کے لیے آیا ہے، اس بات پر عدالت میں قہقے گونج اٹھے۔
شاہ محمود قریشی کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے ریمارکس دیے کہ عدالت مناسب آرڈر کرے گی، کیا عدالت نے ملزمان کو طلب کیا تھا؟ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ آپ نے ملزمان کو طلب کیا تھا۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے ریمارکس دیے کہ جتنے مرضی نوٹی فکیشن لائیں کوئی فرق نہیں پڑتا، عوام کو رسائی ہونی چاہیے، عدالت میڈیا کو عدالت تک رسائی ہونی چاہیے، میں خواہش کا لفظ استعمال کر رہا ہوں کہ جو بھی کیس سننے کی خواہش رکھتا ہو کیا اسے اجازت دے سکتے ہیں؟
سلمان صفدر نے استفسار کیا کہ آپ کی طرف سے فیصلے کرنے والا جیل سپرنٹنڈنٹ کون ہوتا ہے؟
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے جیل میں ٹرائل کیا جاسکتا ہے، عدالت میں جیل حکام دستاویزی شواہد کے ساتھ بتایا کہ سیکیورٹی خدشات کی بنیاد پر پیش نہیں کرسکتے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس عدالت کی کارروائی کو غیر قانونی قرار نہیں دیا، عدالت نے فیصلہ کرنا ہے کہ جیل میں ٹرائل ہوگا یا یہاں پر، آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ جیل ٹرائل کی صورت میں کتنے لوگ عدالت میں آسکتے ہیں۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو فرق نہیں پڑتا کہاں ٹرائل ہوگا، عدالت چاہتی ہے کہ جو ٹرائل کو دیکھنا چاہے اس کے لیے کیا کریں گے، سیکشن 352 کا اطلاق کرنا ہے اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
علی بخاری نے استفسار کیا کہ شاہ محمود قریشی کی حد تک کوئی خط و کتابت نہیں، اُن کو پیش کیوں نہیں کیا گیا؟
سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے استفسار کیا کہ یہاں کون سا ایسا واقعہ ہوا جس سے کہیں کوئی تھریٹ ہے، روزانہ اڈیالہ جیل سے دہشت گردوں کو لایا جاتا ہے، اب یا تو پیش کیا جائے یا ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر اسکندر ذوالقرنین سلیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالتی فیصلے پر عمل نہ ہونے پر متعلقہ آئی جی کو طلب کیا جانا چاہیے، ایف آئی اے پراسیکیوٹر کا کام نہیں ہے کہ وضاحتیں دیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور جیل سپرنٹنڈنٹ کے درمیان خط و کتابت سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔
دریں اثنا عدالت نے فریقین کے دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا، جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے ریمارکس دیے کہ اس حوالے سے آرڈر پاس کروں گا۔
بعدازاں عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سائفر کیس کی سماعت اڈیالہ جیل میں ہوگی، جیل حکام اور سیکیورٹی اداروں نے سیکیورٹی خدشات کا اظہار کیا، آئندہ سماعت جیل میں ہی ہوگی جو کہ اوپن کورٹ ہوگی، میڈیا اور پبلک کو بھی شرکت کی اجازت ہوگی، پہلے کی طرح 5، 5 فیملی ممبران کو بھی اجازت ہوگی، آئندہ سماعت جمعہ (یکم دسمبر) کو ہوگی۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے فیصلے میں ریمارکس دیے کہ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کی سیکیورٹی رپورٹ کی روشنی میں جیل میں ٹرائل ہوگا، سائفرکیس کی سماعت سننے کے خواہشمند کو روکا نہیں جائے گا، صحافیوں کو بھی سائفر کیس کی سماعت سننے کی اجازت ہوگی۔
واضح رہے کہ 21 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں جاری جیل ٹرائل کے خلاف چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی انٹراکورٹ اپیل کو منظور کرتے ہوئے جیل ٹرائل کا 29 اگست کا نوٹی فکیشن غیرقانونی قرار دے دیا تھا۔
عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی جیل ٹرائل اور جج تعیناتی کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی کی انٹراکورٹ اپیل کو منظور کرلیا تھا، عدالت نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج کی تعیناتی درست قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ 15 نومبر کے وزارت قانون کے جیل ٹرائل نوٹی فکیشن کا ماضی سے اطلاق نہیں ہو گا۔
بعدازاں 23 نومبر کو سائفر کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 28 نومبر کو (آج) اسلام آباد کے فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس (ایف جے سی) میں پیش کرنے کی ہدایت کردی تھی۔