اسلام آباد:(سچ خبریں) اقوام متحدہ فنڈز برائے اطفال (یونیسیف) کے ریجنل ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا جارج لاریا ایڈجی نے کہا ہے کہ اگر پاکستان کو سیلاب سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری نے فوری طورپر مدد نہیں کی تو آئندہ آنے والے ہفتوں میں سیکڑوں بچوں کی اموات ہوسکتی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یونیسیف کے علاقائی سربراہ نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا، اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بچوں اور بچیوں کو زندہ رہنے کے لیے ہماری مدد کی سخت ضرورت ہے اور پاکستان کے لیے بین الاقوامی اپیل پر ملنے والی امداد اب تک ناکافی ہے۔
ملک میں حالیہ تباہ کن سیلاب کے بعد لاکھوں بچوں کی زندگی تباہ ہوگئی ہے، ان کا کہنا تھا کہ جن بچوں سے میری ملاقات ہوئی ہے انہوں نے اپنی کتابیں، گھر، اسکول، تحفظ اور اپنے پیاروں سمیت سب کچھ کھو دیا ہے۔
یونیسیف کے عہدیدار نے خبر دار کیا کہ فوری عالمی اقدام نہ ہونے پر پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ آنے والی تباہی بہت سے بچوں کی بقا کے لیے آنے والی آفات کا صرف پیش خیمہ ہے۔
واضح رہے کہ تقریباً ایک کروڑ بچوں کو فوری امداد کی اشد ضرورت ہے جبکہ سیکڑوں بچوں کی پہلے ہی موت واقع ہو چکی ہے، ملک میں اس وقت صورتحال انتہائی سنگین ہے، ہر 9 میں سے ایک بچہ شدید غذائی قلت کا شکار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خوف زدہ والدین اپنے بچوں کےلیے ایک وقت کا کھانا تلاش کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
یونیسف کے ریجنل ڈائریکٹر کاکہنا تھا کہ آئندہ موسم سرما میں کئی بچے خیموں میں زندگی گزار رہے ہیں، سیلابی پانی کی وجہ یہ بچے ایسی بیماریوں کا شکار ہوکر مرتے رہیں گے جو عام طور پر قابل علاج ہوتی ہیں یا ان سے بچاؤ ممکن ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح وقت کے ساتھ ساتھ میڈیا کی توجہ سیلاب سے کم ہوتی جارہی ہے، پاکستان میں بچوں کی زندگی مزید خطرے میں پڑسکتی ہے۔
کمزور اور بھوکے بچے اسہال، ملیریا، ڈینگی بخار، ٹائیفائڈ، غذائی قلت، سانس کے انفیکشن، جِلد کی بیماریوں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں،جسمانی بیماری کے ساتھ یہ بحران جتنا زیادہ عرصہ رہے گا بچوں کی ذہنی صحت کے لیے اتنا ہی زیادہ خطرہ ہے۔
ریلیف کیمپ کا دورہ کرنے کے بعد یونیسیف کے ریجنل ڈائریکٹر نے اپنا تجربہ بتاتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے ضلع صحبت پور کے ریلیف کیمپ میں میری ملاقات فریدہ سے ہوئی جو سیلاب کے بعد اپنے پانچ بچوں کے ساتھ اپنا گھر چھوڑ آئی تھیں، وہ اپنی ایک سالہ بیٹی رشیدہ کے بیمار ہونے کی وجہ سے سخت پریشان تھیں جو کہ کمزور اور شدید غذائی قلت کا شکار تھی۔
جارج لاریہ ایڈجی کاکہنا تھا کہ حالیہ موسمیاتی تباہی میں جنوبی ایشیا کے بچوں نے کوئی کردار ادا نہیں کیا پھر بھی وہ اتنی بڑی قیمت ادا کررہے ہیں۔
یہ موسمیاتی تباہی صحت، تندرستی اور 61 کروڑ 60 لاکھ سے زیادہ بچوں اور بچیوں کی بقا کے لیے خطرہ ہے جو اس خطے کو اپنا گھر کہتے ہیں۔ یونیسیف عہدیدار نے کہا کہ حکومت کو فوری طور پر بالخصوص بچوں کے لیے صاف پانی، صحت اور تعلیم کے لیے مناسب بندوبست کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر بچے اور بچی کے پاس وہ مہارت اور علم ہو جس کی انہیں موسمیاتی تبدیلی کی دنیا میں زندہ رہنے اور ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے ضرورت ہے۔