اسلام آباد: (سچ خبریں) خاتون مجسٹریٹ اور اعلیٰ پولیس افسران کو دھمکیاں دینے سے متعلق کیس میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی عبوری ضمانت میں 20 ستمبر تک توسیع کردی۔
خیال رہے کہ عمران خان کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت21 اگست کو اسلام آباد میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جب کہ عدالت نے یکم ستمبر کو انہیں ضمانت دیتے ہوئے 12 ستمبر تک گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔
عمران خان کی عبوری درخواست ضمانت پر وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوگئی، انسداد دہشت گردی عدالت کے جج راجہ جواد عباس حسن سماعت کر رہے ہیں۔
سماعت کے دوران وکیل بابر اعوان نے کہا کہ عمران خان کمرہ عدالت میں موجود ہیں، پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی نے کہا کہ عمران خان نے ابھی تک تفتیش جوائن نہیں کی۔
بابر اعوان نے کہا آپ کو بتایا گیا عمران خان کا بیان تفتیشی افسر کے پاس ہے، کہا لکھا ہوا ہے کہ تفتیش کے لیے تھانہ جانا چائیے، اگر پراسیکیوٹر نے بحث کرنی ہے تو میں تیار ہوں، پراسیکیوٹر بھی نئے تعینات ہوئے ہیں۔
پراسیکیوٹر نے بتایا کہ جے آئی ٹی نے 3 نوٹسز جاری کیے لیکن عمران خان نے تفتیش جوائن نہیں کی، جج نے ریمارکس دیے کہ 161 ایک دفعہ پڑھ لیں سیکشن کا ذکر کیا ہے وہ پڑھنا ضروری ہے، پراسیکیوٹر نے سیکشن 161 پڑھ کر سنائی۔
جج نے وکیل بابر اعوان سے استفسار کیا کہ کیا یہ نوٹس ملا ہے جس پر بابر اعوان نے کہا کہ سیکشن 161 گواہ کا کہتی ہے میں گواہ نہیں ہوں، سیکشن 161 میں کہا لکھا ہوا ہے تھانہ میں بلا کر تفتیش کریں، بیان لکھ کر دیا گیا اسکو ریکارڈ پر ہی نہیں لایا گیا، آپ نے صبح خود کہا بیان کو تفتیش کا حصہ کیون نہیں بنایا گیا، یہ آپ نہیں کہہ رہے تھے یہ قانون کہہ رہا تھا، پولیس نے ضمنی میں بیان کو کیوں نہیں لکھا۔
وکیل بابر اعوان نے مؤقف اپنایا کہ مجھے عدالت لکھ کر دے تو عمران خان تھانہ شامل تفتیش ہو جائیں گے، انھوں نے حملہ کر کے دو اپنے بندے مار دینے ہیں، میں اس لیے کہہ رہا ہو سانحہ ماڈل ٹاون کے سارے ملزم اسلام آباد میں ہیں۔
بابر اعوان نے کہا کہ پولیس کے سامنے ملزم کے بیان کی کیا حیثیت ہے،میں نے آفر کی تھی اس کمرہ عدالت میں عمران خان بیان دے دیتے ہیں، مقدمہ کی دو لائنیں ہی ہیں باقی کیس تو ہائیکورٹ چلا گیا ہے۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ سیکشن 161 گواہ کا کہتی ہے میں گواہ نہیں ہوں، سیکشن 161 میں کہا لکھا ہوا ہے تھانہ میں بلا کر تفتیش کریں، بیان لکھ کر دیا گیا اسکو ریکارڈ پر ہی نہیں لایا گیا،آپ نے صبح خود کہا بیان کو تفتیش کا حصہ کیون نہیں بنایا گیا۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ یہ آپ نہیں کہہ رہے تھے یہ قانون کہہ رہا تھا، پولیس نے ضمنی میں بیان کو کیوں نہیں لکھا، مجھے عدالت لکھ کر دے تو عمران خان تھانہ شامل تفتیش ہو جایینگے، انھوں نے حملہ کر کے دو اپنے بندے مار دینے ہیں، میں اس لیے کہا رہا ہو سانحہ ماڈل ٹاون کے سارے ملزم اسلام آباد میں ہیں۔
عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ پولیس کے سامنے ملزم کے بیان کی کیا حیثیت ہے، میں نے آفر کی تھی اس کمرہ عدالت میں عمران خان بیان دے دیتے ہیں، مقدمہ کی دو لائنیں ہی ہیں باقی کیس تو ہائیکورٹ چلا گیا ہے۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ کیا گراونڈ ہے کہ میں نے تھانے جانا ضرور ہے، جج نے استفسار کیا کہ کیا جے آئی ٹی کے نوٹس کی بات کر رہے ہیں، جج نے پراسیکیوٹر کو ہدایت کی کہ نوٹسز جو جاری کیے گئے وہ دیکھا دیں۔
پولیس کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹسز وکیل بابر اعوان پڑھ رہے ہیں بابر اعوان نے کہا کہ دو دفعہ میں شامل تفتیش ہوا ہوں، انسپکٹر نے دو دفعہ مانا کہ بیان دیا گیا،ایک دفعہ جے آئی ٹی کو بیان دیا گیا،پہلی دفعہ پولیس آئی کہ وکلاء کو تھانوں میں جانا پڑ رہا ہے، میرے وکیل کی بھی جان کو خطرہ ہے کیوں تھانہ بلایا جا رہا ہے، مین نے آفر کی تفتیش کرنی ہے تو کمرہ عدالت میں کر لیں۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ میں نے لکھ کر دیا کہ تین ملزمان سے جان کا خطرہ ہے، جج نے ریمارکس دیے کہ یہ بات آپ نے لیٹر میں بھی لکھی ہے۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ دو ملزم کہتے ہیں تھانہ آو،پولیس تفتیش کرنا چاہتی ہے یا مجھے ہراساں کرنا ہے۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ زیبا چوہدری سے متعلق کہا گیا تمہیں نہیں چھوڑیں گے، ایکشن لیں گے جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ یہ آپ چھوڑ دیں، یہ معاملہ اوپر والی عدالت میں ہے۔
جج نے ریمارکس دیے کہ آپ کو دو ہفتوں کے بعد کیوں تعینات کیا جاتا ہے، کیا کوئی ٹائم کا مسئلہ ہے جس پر پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے جواب دیا کہ یہ مجھے نہیں پتہ کل ہی نوٹیفکیشن ہوا ہے
قبل ازیں، اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت میں عمران خان کی عبوری درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی تھی جس کے دوران عمران خان کو طلب کرتے ہوئے 11 بجے تک وقفہ کردیا گیا تھا۔
دوران سماعت عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے سیکیورٹی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے بھی گاڑی جوڈیشل کمپلیکس بھی نہیں آنے دی گئی جس پر جج نے ہدایت کی کہ آپ عمران خان کی گاڑی جوڈیشل کمپلیکس میں لے آئیں، جج نے کہا کہ گاڑی کے ساتھ عوام بہت ہو جاتی ہے یہ خیال کیجئے گا زیادہ رش نہ ہو۔
جج نے بابر اعوان سے استفسار کیا کہ کیا عمران خان نے تفتیش جوائن کر لی ہے جس پر بابراعوان نے عدالت کو بتایا کہ جی ہم نے تفتیش جوائن کی ہوئی ہے، جج نے استفسار کیا کہ ہمارے اپنے پراسیکیوٹر کدھر ہیں، پہلے بھی دو پراسیکیوٹر کو ڈی نوٹیفائی کیا کا چکا ہے، آپ بہت جلدی ڈی نوٹیفائی کر دیتے ہیں۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ہائی کورٹ نے بھی ڈائریکشن دے رکھی ہے، جج نے استفسار کیا کہ اس مقدمہ کا تفتیشی کون ہے، جج نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ جی محمد علی کیا عمران خان نے تفتیش جوائن کی ہے، جس پر تفتیشی آفسر نے جواب دیا کہ تین نوٹسز بھیجے گئے لیکن عمران خان شامل تفتیش نہیں ہوئے، عمران خان کا وکیل کے ذریعے جواب آیا ہے۔
جج نے استفسار کیا کہ یہ سارا کیس ہی بیان پر ہے، کیا اس کو ریکارڈ کا حصہ بنایا ہے جس پر تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ عمران خان شامل تفتیش ہی نہیں ہوئے ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا، جج نے ریمارکس دیے کہ اس سے تو آپ کی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے۔
جج نے استفسار کیا جے آئی ٹی کی کیا صورتحال ہے، تفتیشی افسر نے جواب دیا جے آئی ٹی تو بنی ہوئی ہے، جج نےریمارکس دیے کہ یہ بھی دیکھ لیجئے گا مقدمہ کے اندراج کو کتنے دن ہوگے، جے آئی ٹی کو بھی دیکھ لیجئے گا کتنے دن بعد بنی، تاخیر سے تو نہیں بنی، کیا جے آئی ٹی کیوجہ سے 30 دنوں تک ضمانت زیرالتواء رکھے گیں۔
دوران سماعت پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم آئے اور تفتیش کو جوائن کرے، جج نے پراسیکیوٹر سے استفسارکیا کہ اب یہ آئے اور جائے یہ کدھر لکھا ہے۔
اس دوران عدالت نے بابر اعوان کو آج دلائل دینے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس کی وجہ سے دیگر کیسز زیرالتوا رکھنے پڑتے ہیں، ملزم کو لے آئیں تاکہ دلائل مکمل ہو سکیں۔
بابراعوان نے کہا کہ مجھے سیکورٹی خدشات ہیں، مجھے پولیس پر اعتماد نہیں، پہلے ہی پاکستان کے وزرائے اعظم مارے جا چکے ہیں، ابھی تک پولیس کسی بھی ملزم کو گرفتار نہیں کر سکی، آپ یہاں پر کہیں، عمران خان شامل تفتیش ہو جائیں گے۔
اس دوران عدالت نے عمران خان کو 11 بجے طلب کر لیا، جج نے ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ گیارہ بجے تک پراسیکیوٹر بھی آجائیں گے اور بابر اعوان مکمل دلائل بھی دے دیں گے، اس کے ساتھ ہی عمران خان کی عبوری درخواست ضمانت کی سماعت پر 11 بجے تک کے لیے وقفہ کر دیا گیا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی جوڈیشل کمپلیکس میں آمد سے قبل سیکیورٹی کے انتظامات مزید سخت کر دئیے گئے تھے۔