اسلام آباد: (سچ خبریں) موجودہ انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ نظر ثانی شدہ معاہدوں میں ایک ہزار 100 ارب روپے سے زائد کی بچت کا دعویٰ کرتے ہوئے حکومت نے بجلی کی قیمت میں کمی کے لیے 10 ہزار میگاواٹ کے آئی پی پیز کو مہنگا اور ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں ہائیڈرو الیکٹرک پاور سے متعلق سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے توانائی اویس لغاری نے بڑے فیصلوں کا اعلان کیا، اور توانائی کے شعبے سے نااہلیوں کا خاتمہ کرنے کے لیے جرات مندانہ فیصلوں کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے کے الیکٹرک کی جانب سے آئندہ 7 سال میں ساڑھے 10 روپے فی یونٹ اضافے کی تجویز کو تنقید کا نشانہ بنایا اور 14 ارب ڈالر کے دیامر بھاشا ڈیم جیسے منصوبوں سے بجلی کی پیداوار کو مسترد کردیا۔
انہوں نے بجلی کے بلوں پر ٹیکس کے ڈھانچے کو تبدیل کرنے اور ملک بھر میں یکساں ٹیرف نظام کو ختم کرنے کا بھی اشارہ دیا تاکہ اس شعبے میں نااہلیت کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ’سب کو بہتر کام کرنے کی ترغیب دی جاسکے‘، انہوں نے کہا کہ ہم ٹیکس کے ڈھانچے کو تبدیل کرکے قیمتوں کو کم کرنے پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔
اویس لغاری نے کہا کہ بہتر مستقبل کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو جرات مندانہ فیصلے کرنے ہوں گے، اس میں ارکان پارلیمنٹ اور سیاست دان بھی شامل ہیں جو ایک یا دو سال تک مشکلات کا شکار رہ سکتے ہیں، دنیا کے کسی بھی ملک میں بجلی کے نرخ یکساں نہیں ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت کو قانونی حق حاصل ہے کہ وہ 17 ہزار میگاواٹ کے منصوبوں میں سے 10 ہزار میگاواٹ کے منصوبوں کو ختم کردے، جو مالی طور پر بند نہیں ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم اس حق کا استعمال کریں گے‘، چاہے کسی بھی کمپنی کو لیٹر آف سپورٹ (ایل او ایس) دیا گیا ہو یا نہ دیا گیا ہو، ہم کسی بھی شکل میں کوئی دباؤ قبول نہیں کریں گے، چاہے وہ ایک ہزار میگاواٹ کے لیے ہو، 3 ہزار میگاواٹ کے لیے ہو یا جی ٹو جی (حکومت سے حکومت) کی پیشکش کے لیے ہو۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ 40 سے 50 فیصد فزیکل پروگریس والے منصوبے اور مالی تکمیل حاصل کرنے والے منصوبوں کو آگے بڑھایا جائے گا، اسی طرح صوبائی منصوبے جہاں پہلے سے ہی مالی وعدے موجود تھے، وہ بھی برقرار رہیں گے۔
اویس لغاری نے کہا کہ مستقبل میں توانائی کے تمام معاہدوں میں کم سے کم لاگت والی بجلی کو ترجیح دی جائے گی، جہاں طلب ٹیکنالوجی پر منحصر ہوگی اور بجلی کی فراہمی کی لائنیں اس جگہ کا تعین کریں گی جس میں اگلے پلانٹ کو بجلی کے نظام کے لیے قبول کیا جانا چاہیے، مسابقتی بولی حتمی انتخاب کا فیصلہ کرے گی، جس میں نجی سرمایہ کار ’متعلقہ خطرات‘ اٹھائیں گے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ وزارت توانائی نے متعدد اقدامات کیے ہیں، اور آئندہ 10 سال کے لیے طے شدہ تمام منصوبوں کو چیلنج کیا ہے جن میں دیامر بھاشا ہائیڈرو پاور پروجیکٹ، نیوکلیئر پاور پروجیکٹس اور یہاں تک کہ قابل تجدید توانائی کے منصوبے شامل ہیں، جو صارفین اور معیشت کے لیے ان کی فزیبلٹی کی بنیاد پر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگلے 10 سال کے لیے ’پیداواری توسیعی منصوبے‘ کے تحت 17 ہزار میگاواٹ کے بجلی گھروں میں سے صرف 87 میگاواٹ کم لاگت کے اصول پر سسٹم میں شامل ہونے کے اہل ہیں۔
اویس لغاری نے کہا کہ ہمارا ملک اور صارفین اب اس مہنگی توانائی کے متحمل نہیں ہوسکتے، اسٹریٹجک وجوہات کی بنا پر کسی بھی منصوبے کو ترقیاتی پروگرام کے ذریعے صارفین پر بوجھ ڈالے بغیر حکومت کی جانب سے مالی اعانت فراہم کی جانی چاہیے۔
انہوں نے دیامر بھاشا ڈیم کے اسٹوریج اور فلڈ کنٹرول کے فوائد کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس سے منسلک 3 ارب ڈالر کے ٹرانسمیشن اخراجات اور بجلی کی پیداوار کے اخراجات صارفین کے لیے ’بوجھ‘ ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ڈیم سے بجلی کو ٹیرف میں ضم کیا جاتا ہے، تو قومی سطح پر بجلی کی قیمت میں 5 روپے فی یونٹ اضافہ ہوگا، حالانکہ حکومت فی الحال ایک یا ڈیڑھ روپے فی یونٹ بچت کے لیے آئی پی پیز سے لڑ رہی ہے۔
وفاقی وزیر نے گوادر کول پروجیکٹ، آزاد پتن اور کوہالہ ہائیڈرو پاور پروجیکٹس جیسے دیگر منصوبوں کی عدم دستیابی کی نشاندہی بھی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک بنیادی فیصلہ کیا گیا ہے کہ صرف ٹیکنالوجی، ڈیمانڈ، ٹرانسمیشن لائن اور ٹیرف ہی مستقبل میں صلاحیت میں اضافے کا تعین کریں گے، حکومت یا اس کی سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) تمام توانائی خریدے گی نہ خطرات مول لے گی۔
وفاقی وزیر توانائی نے کہا کہ بجلی کی مسابقتی مارکیٹ مارچ میں فعال ہو جائے گی، اور اس انقلاب سے نجی شعبے کو فیصلے کرنے میں سہولت ملے گی، اگر وزیر آئی ٹی کو ٹیلی نار، یوفون یا موبی لنک کے لیے فیصلے کرنے پڑیں تو صورتحال کا تصور کریں، کوئی بھی حکومت یا وزیر توانائی نجی شعبے کی طرح مؤثر فیصلے نہیں کر سکتا۔
انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ حکومت نیٹ میٹرنگ ’امیر اور اشرافیہ‘ صارفین کے لیے شرح کو تبدیل کرنے پر کام کر رہی ہے، جو اس وقت 21 روپے فی یونٹ کی شرح سے ادا کی جا رہی ہے، جس میں کیپیسٹی چارج بھی شامل ہے، انہیں صرف توانائی کی قیمت دی جائے گی، جس سے ان کی مکمل لاگت کی وصولی موجودہ 18 مہینوں سے تقریباً ساڑھے 4 سال تک تبدیل ہوجائے گی۔
اویس لغاری نے کہا کہ توانائی کے اخراجات ناقابل برداشت ہو گئے ہیں، اور عوام زیادہ اخراجات کی وجہ سے دوسرے ذرائع کی طرف منتقل ہو رہے ہیں، اگلے 5 سال میں نیٹ میٹر والے صارفین اپنی بیٹری پر مبنی بجلی دوسرے صارفین اور گرڈ کو فروخت کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں گورننس اصلاحات کے ثمرات مل رہے ہیں، 10 میں سے 8 ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے بورڈز بغیر کسی سیاسی مداخلت کے تبدیل کیے گئے، جس کے نتیجے میں جولائی تا نومبر ان کا خسارہ گزشتہ سال کے 223 ارب روپے کے مقابلے میں کم ہو کر 170 ارب روپے رہ گیا، اگر باقی دونوں بورڈز تبدیل ہو جاتے تو خسارہ مزید کم ہو کر 140 ارب روپے رہ جاتا، کیونکہ ان دونوں کمپنیوں نے گزشتہ سال کے مقابلے میں 30 ارب روپے زائد خسارے کا اضافہ کیا۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ ان کی وزارت نے آخری لمحات میں اس وقت مداخلت کی جب نیپرا کے الیکٹرک کے لیے کئی سالہ ٹیرف جاری کرنے والا تھا، جو اگلے 7 سال کے لیے ساڑھے 10 روپے فی یونٹ اضافے کا مطالبہ کر رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے تمام اجزا کو ختم کردیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ٹیرف میں اضافہ ایک روپے فی یونٹ سے بھی کم ہونا چاہیے، یہ ریگولیٹر کا کام تھا جو پاور ڈویژن نے کیا اور امید ہے کہ ریگولیٹر کو اصل عوامل کا احساس ہوگا۔