خواجہ آصف نے کہا کہ اگر اس وقت کشیدہ صورتحال بالفرض ہے تو بھی یہ استدلال کیسے کیا جاسکتا ہے کہ قبل از وقت الیکشن کرائے جائیں، اگر ابھی الیکشن کرائے جاتے ہیں تو پھر تمام معاملات سے ہٹ کر تمام توجہ انتخابات کی جانب مرکوز ہوجائے گی، اس سے کشیدگی ختم نہیں ہوگی، کشیدگی تو اب شروع ہوگی کہ ابھی الیکشن کراتے ہیں پھر اس کے بعد اکتوبر میں الیکشن کراتے ہیں، پھر نومبر، دسمبر تک حکومت بنتی رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ حکومت عمران خان کی مقبولیت سے خوفزدہ ہے، ہم تو صرف آئین کی بات کر رہے ہیں، اس میں کوئی خوف کی یا مقبولیت کی بات نہیں ہے، مقبولیت کبھی ایک سطح پر برقرار نہیں رہتی، اوپر، نیچے ہوتی رہتی ہے، مقبول غیرمقبول، غیر مقبول مقبول ہوجاتے ہیں، ساری دنیا میں اسی طرح سے ہوتا ہے، اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے، عمران خان کو خطرہ ہے کہ اگر ابھی ان کی کوئی مقبولیت ہے تو وہ ختم نہ ہوجائے، کم نہ ہوجائے، ان کو ایسا خطرہ ہے، باقی ہمیں ایسی خطرے والی کوئی بات نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں الیکشن ایک دن ہی ہوں گے اور اکتوبر میں ہوں گے، میرے خیال میں اکتوبر سے پہلے الیکشن نہیں ہوں گے۔
صحافی کے اس سوال پر کہ آپ کی پارٹی کے کچھ رہنما کہتے ہیں کہ عمران خان دہشت گرد ہے، اس کے ساتھ بات چیت اور مذاکرات کبھی ہو ہی نہیں سکتے جس پر جواب دیتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ میں بھی تو یہی کہہ رہا ہوں کہ مذاکرات نہیں ہونے چاہئیں، میں خود اس بات کا حامی ہوں کہ وقت کا ضیاع ہے، آپ کے سامنے کہہ رہا ہوں کہ مذاکرات نہیں ہونے چاہئیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر اور سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمٰن نے بھی تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت کی حمایت کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہونے والے کسی مذاکرات کا حصہ نہیں بن رہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ میں اپنا مؤقف واضح کردینا چاہتا ہوں کہ یہ سیاست دانوں کا بھی مسئلہ نہیں ہے کہ سیاستدان آپس میں بیٹھ کر بات کریں، یہ الیکشن کمیشن کا معاملہ ہے، الیکشن کمیشن بعض اوقات انتخابات کے معاملے پر سیاسی جماعتوں کو مشاورت کے لیے بلا لیتا ہے تو یہ اس کا اختیار ہے۔
سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا تھا کہ اگر سینیٹ کے اندر وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی سے بات چیت ہونی چاہیے تو وہ وفاق کا ایک ادارہ ہے، تاہم اپنے اصول کے تحت ہم پھر بھی اس کا حصہ نہیں بن رہے، ہمارا مؤقف یہی ہے کہ یہ الیکشن کمیشن کا معاملہ ہے اور الیکشن کمیشن ہی اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئےاس معاملے کو آگے لے کر جائے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کے حوالے سے مذاکرات کا پہلا دور گزشتہ روز ہوا تھا جس میں فریقین نے بات چیت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اندرونی ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ پی ٹی آئی نے میٹنگ کے دوران تین اہم مطالبات پیش کیے جو درج ذیل ہیں:
جولائی میں عام انتخابات کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے مئی میں قومی اسمبلی، سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں تحلیل کردی جائیں۔اگر حکومت پنجاب میں انتخابات کے لیے 14 مئی کی تاریخ سے آگے جانا چاہتی ہے تو انتخابات کو 90 دن سے زیادہ مؤخر کرنے کے لیے ایک بار کی رعایت کے لیے آئینی ترمیم منظور کرائی جائے۔اسپیکرپی ٹی آئی کے اراکین کے استعفوں کی منظوری کا حکم واپس لیں تاکہ ان کی قومی اسمبلی میں واپسی ہوسکے۔
اتحادی حکومت کی جانب سے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیر تجارت نوید قمر، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور سابق وزیراعظم سینیٹر یوسف رضا گیلانی مذاکرات میں شریک تھے۔
حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوئے، فریقین کے درمیان مذاکرات شروع ہونے سے قبل حکومتی اور تحریک انصاف کی کمیٹی ارکان نے چیئرمین سینیٹ کے چیمبر میں مشاورت بھی کی تھی۔