اسلام آباد:(سچ خبریں) حکومت گنوانے کے بعد عمران خان کا دوسرا لانگ مارچ لاہور سے روانہ ہوچکا ہے۔ اس سے پہلے وہ رواں سال 25 مئی کو پشاور سے روانہ ہوئے تھے۔ مگر اُن دنوں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی، جبکہ اس بار ان کی اپنی حکومت ہے، اسی لیے اس بار انہوں نے لانگ مارچ کا آغاز پشاور کے بجائے لاہور سے کیا۔ اس بار بھی تھوڑے سے فرق کے ساتھ مطالبات وہی ہیں جو 25 مئی والے احتجاج کے وقت تھے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے جو شیڈول جاری کیا ہے اس کے مطابق لانگ مارچ کے قافلے جمعے کے روز اسلام آباد پہنچیں گے۔ اسلام آباد کے چاروں اطراف ان کی حکومتیں ہیں، اس لیے انہیں نہ صرف مالی وسائل کی پریشانی نہیں بلکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے اسلام آباد پہنچنے کی امید بھی ہے۔
پی ٹی آئی کے سربراہ لانگ مارچ میں اپنی تقاریر کے دوران اب حکومت کے ساتھ ساتھ پہلے سے زیادہ کُھل کر اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ ان کی تقاریر میں زیادہ جارحانہ انداز ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد آیا ہے۔
ڈی جی آئی ایس آئی کا باضابطہ طور پر کسی پریس کانفرنس میں اچانک موجود ہونا اور کُھل کر بولنا پریس کانفرنس میں موجود صحافیوں کے لیے بھی حیران کن تھا، کیونکہ یہ پریس کانفرنس نہ صرف اچانک بلائی گئی تھی بلکہ یہ بھی نہیں بتایا گیا تھا کہ اس میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود ہوں گے۔ یہی سبب تھا کہ پریس کانفرنس کے بعد بہت سارے صحافی اپنے سینیئرز سے پوچھتے نظر آئے کہ کیا ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی ڈی جی آئی ایس آئی نے پریس کانفرنس کی ہے؟