لاہور: (سچ خبریں) دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں لاہور آج بھی پہلے نمبر پر رہا اور بھارت سے آنے والی ہوا سے شہر کی فضا انتہائی مضر صحت ہوگئی جبکہ ایئرکوالٹی انڈیکس آج بھی ایک ہزار سے زائد رہا۔
بھارت میں جلائی گئی فصلوں اور کچرے کا دھواں اور ہوا لاہور پہنچ گیا، پڑوسی ملک سے آنے والی تیز ہواؤں کی وجہ سے لاہور فضائی آلودگی انڈیکس میں پہلے نمبر پر رہا، بھارت کے دو شہر دہلی اور کلکتہ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے۔
بھارتی شہروں جالندھر، لدھیانہ، چندی گڑھ، بھٹنڈہ، کرنال، گورداسپور، امرتسر اور اٹاری سے دھوئیں کے گہرے سیاہ بادل تیز ہواؤں اور مرغولوں کی شکل میں پاکستانی علاقوں میں آرہے ہیں۔
بھارت کی طرف سے چلنے والی ان ہواؤں سے سب سے زیادہ متاثر لاہور متاثر ہو رہا ہے، صوبائی دارالحکومت میں اسموگ کی صورت حال مزید پیچیدہ ہوگئی۔
وزیر اطلاعات پنجاب مریم اورنگزیب کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ لاہور اور بھارت سے ملحقہ پاکستانی شہر ہواؤں کی رفتار اور رخ بدلنے سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت میں کسانوں کے فصلوں کی باقیات کو بڑے پیمانے پر فضائی آلودگی میں اضافہ ہوا جبکہ ماحولیات کے تحفظ کا ادرے میں قائم ’وار روم‘ 24 گھنٹے جنگی بنیادوں پر کام کر رہا ہے، مانیٹرنگ اور کلین اپ آپریشن بھی مسلسل جاری ہے۔
دوسری جانب، محکمہ تحفظ ماحول نے لاہور میں اسموگ کا نیا الرٹ جاری کردیا جبکہ اسموگ سے متعلق تازہ ترین صورتحال پنجاب حکومت کی گرین ایپ پر جاری کی جارہی ہیں۔
سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے اپیل کی کہ عوام احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کریں، بزرگ، بیمار اور بچے خاص طور پر احتیاط کریں، ماسک لازمی پہنیں، غیر ضروری طور پر گھروں سے نہ نکلیں۔
پنجاب میں اسموگ ایس او پیز کی خلاف ورزیوں پر بھرپور کارروائیاں جاری ہیں، فصلوں کی باقیات اور دیگر مقامات پر آگ لگانے پر 607 ملزمان کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔
لاہور میں اسموگ سے متعلق کریک ڈاؤن میں 24 افراد گرفتار اور 17 مقدمات درج کیے گئے۔
اکتوبر کے مہینے میں آلودگی پھیلانے والی ایک ہزار 344 گاڑیاں بند کی گئیں، 2 ہزار 397 گاڑیوں کے چالان اور ایک کروڑ روپے کے جرمانے عائد کیے گئے جبکہ دو ڈرائیورز کو بھی گرفتار کیا گیا۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے شاہراہوں، انڈسٹریل ایریاز سمیت دیگر مقامات پر انسداد سموگ کریک ڈاؤن میں تیزی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ سیف سٹی کیمروں کی مانیٹرنگ سے زیادہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی لائی جائے۔
انہوں نے کہا کہ فصلوں کی باقیات، کوڑا کرکٹ جلانے اور قانون شکنی کے مرتکب فیکٹری و بھٹہ مالکان کے خلاف زیرو ٹالرنس کے تحت کاروائی کو یقینی بنایا جائے۔
اسموگ (Smog) دھوئیں اور دھند کا امتزاج ہے جس سے عموماً زیادہ گنجان آباد صنعتی علاقوں میں واسطہ پڑتا ہے۔ لفظ اسموگ انگریزی الفاظ اسموک اور فوگ سے مل کر بنا ہے۔
اس طرح کی فضائی آلودگی نائٹروجن آکسائیڈ، سلفر آکسائیڈ، اوزون، دھواں یا کم دکھائی دینے والی آلودگی مثلا کاربن مونوآکسائیڈ، کلورو فلورو کاربن وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہے۔
جب فضا آلودہ ہو یا وہ گیسز جو اسموگ کو تشکیل دیتی ہیں، ہوا میں خارج ہوں تو سورج کی روشنی اور اس کی حرارت ان گیسوں اور اجزا کے ساتھ ماحول پر ردعمل کا اظہار اسموگ کی شکل میں کرتی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ہوائی آلودگی ہی ہوتی ہے۔
عام طور پر یہ زیادہ ٹریفک، زیادہ درجہ حرارت، سورج کی روشنی اور ٹھہری ہوئی ہوا کا نتیجہ ہوتی ہے، یعنی سرما میں جب ہوا چلنے کی رفتار کم ہوتی ہے تو اس سے دھوئیں اور دھند کو کسی جگہ ٹھہرنے میں مدد ملتی ہے جو اسموگ کو اس وقت تشکیل دے دیتا ہے جب زمین کے قریب آلودگی کا اخراج کی شرح بڑھ جائے۔
اسموگ بننے کی بڑی وجہ پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں سے گیسز کا اخراج، صنعتی پلانٹس اور سرگرمیاں، فصلیں جلانا (جیسا محکمہ موسمیات کا کہنا ہے) یا انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی حرارت ہے۔
اسموگ انسانوں، جانوروں، درختوں سمیت فطرت کے لیے نقصان دہ ہے اور جان لیوا امراض کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے، خصوصاً پھیپھڑوں یا گلے کے امراض سے موت کا خطرہ ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ شدید اسموگ سورج کی شعاعوں کی سطح کو نمایاں حد تک کم کردیتی ہے جس سے اہم قدرتی عناصر جیسے وٹامن ڈی کی کمی ہونے لگتی ہے جو امراض کا باعث بنتی ہے۔
کسی شہر یا قصبے کو اسموگ گھیر لیں تو اس کے اثرات فوری طور پر محسوس ہوتے ہیں جو آنکھوں میں خارش، کھانسی، گلے یا سینے میں خراش اور جلد کے مسائل سے لے کر نمونیا، نزلہ زکام اور دیگر جان لیوا پھیپھڑوں کے امراض کا باعث بن سکتی ہے۔
اسموگ کی معمولی مقدار میں گھومنا بھی دمہ کے مریضوں کے لیے دورے کا خطرہ بڑھانے کے لیے کافی ثابت ہوتی ہے، اس سے بوڑھے، بچے اور نظام تنفس کے مسائل کے شکار افراد بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
اسموگ پھیلنے پر متاثرہ حصوں پر جانے سے گریز کرنا چاہیے تاہم اگر وہ پورے شہر کو گھیرے ہوئے ہے تو گھر کے اندر رہنے کو ترجیح دیں اور کھڑکیاں بند رکھیں۔
باہر گھومنے کے لیے فیس ماسک کا استعمال کریں اور لینسز لگانے کے بجائے عینک کو ترجیح دیں۔
اسموگ کے دوران ورزش سے دور رہیں خصوصاً دن کے درمیانی وقت میں، جب زمین پر اوزون کی سطح بہت زیادہ ہوتی ہے۔
اگر دمہ کے شکار ہیں تو ہر وقت اپنے پاس ان ہیلر رکھیں، اگر حالت اچانک خراب ہو تو ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔
اگر نظام تنفس کے مختلف مسائل کے شکار ہیں اور اسموگ میں نکلنا ضروری ہے تو گنجان آباد علاقوں میں جانے سے گریز کریں جہاں ٹریفک جام میں پھنسنے کا امکان ہو، سڑک پر پھنسنے کے نتیجے میں زہریلے دھویں سے بچنے کے لیے گاڑی کی کھڑکیاں بند رکھیں۔