اسلام آباد(سچ خبریں)اٹارنی جنرل خالد جاوید کا کہنا ہے کہ بھارتی نمائندوں کو کلبھوشن کے ساتھ اکیلے کمرے میں نہیں چھوڑ سکتے ان کا خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھارتی جاسوس کلبھوشن کو وکیل کی فراہمی کے کیس میں وزارتِ قانون کی درخواست پر سماعت کے دوران کیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے بھارتی جاسوس کلبھوشن کو وکیل کی فراہمی کے کیس میں وزارتِ قانون کی درخواست پر سماعت کی۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اور عدالتی معاون حامد خان بھی عدالت میں موجود تھے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ 5 مئی کو عدالت نے تفصیلی آرڈر پاس کیا تھا کہ ایک اور کوشش کی جائے، عدالت نے کہا تھا کہ بھارت سے کلبھوشن کے لیے وکیل فراہم کرنے کا کہا جائے، بھارت کو عدالت کے حکم پر پیغام پہنچایا گیا لیکن ابھی تک اس کی جانب سے جواب نہیں آیا۔
اٹارنی جنرل نے عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے کا متن پڑھ کر سنایا اور کہا کہ عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے کی روشنی میں نظرِ ثانی کی درخواست دائر ہونی ہے، وفاقی حکومت عالمی عدالت کے نظرِ ثانی کے فیصلے پر مکمل عمل درآمد چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت ری کنسڈریشن کے فیصلے پر مکمل عمل درآمد چاہتی ہے، حکومت چاہتی ہے کہ وکیل مقرر کیا جائے جو کلبھوشن کی طرف سے نظرِ ثانی کی درخواست دا ئر کرے۔بھارتی جاسوس کلبھوشن کیلئے قونصلر مقرر کرنے سے متعلق کیس کی سماعت 6 اکتوبر کو ہوگی
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ بھارت چاہتا ہے کہ قونصلر رسائی کے نام پر ان کے نمائندے تنہائی میں کلبھوشن سے ملیں، مگر بھارتی نمائندوں کو کلبھوشن کے ساتھ اکیلے کمرے میں نہیں چھوڑ سکتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں کچھ پتہ نہیں وہ اکیلے مل کر کلبھوشن کے ساتھ کیا کر دیں، وہ اکیلے میں اس سے محض ہاتھ ملا کر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔اٹارنی جنرل خالد جاوید نے یہ بھی کہا کہ کلبھوشن تربیت یافتہ جاسوس ہے جو بھارتی حکومت کے اشارے سمجھ رہا ہے، ہو سکتا ہے کلبھوشن کو پاکستان بھیجتے وقت اس صورتِ حال کی تربیت دی گئی ہو۔