اسلام آباد (سچ خبریں) اسلام آباد میں میڈیا بریفنگ کے دوران وزیرمنصوبہ بندی اور سربراہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) اسد عمر نے کہا کہ ہم نے رمضان کے آخری عشرے اور عید کے لیے مشکل فیصلے کیے تھے جس کی وجہ سے لوگوں کو مشکل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ان بروقت فیصلوں کا اثر یہ ہوا ہے کہ وبا کا پھیلاؤ جو خطرناک سطح تک پہنچا تھا وہ اس کے بعد نہ صرف تھما بلکہ مسلسل بتدریج کمی آرہی ہے، وبا ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ اونچی سطح پر ہے تاہم جہاں ہم پہنچے تھے وہاں سے کافی نیچے آچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری مثبت شرح 10 سے 11 فیصد کے درمیان پہنچ گئی تھی جبکہ پچھلے ہفتے کے دوان ساڑھے 4 اور مجموعی 4 فیصد سے زیادہ تھی، سندھ میں وبا کا پھیلاؤ زیادہ ہے، اس لیے وہاں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمیں بہتری نظر آرہی ہے لیکن احتیاط کی ضرورت ختم نہیں ہوئی اور ہمیں اس وقت بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں خطے اور پڑوسی ملک کی طرح مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن بندشیں ہیں، اسے لوگوں کے کاروبار پر بھی اثر پڑا ہے اور لوگوں کو صحت کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
کورونا وبا کی تیسری لہر سے نکلنے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کا طریقہ کار ویکسینیشن ہے، دنیا کے جن ممالک، جہاں بہت زیادہ ویکسینیشن ہوئی ہے، وہاں پر ہم اس کے بہت مثبت اثرات بھی دیکھ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس وقت 70 لاکھ سے زیادہ ویکسینیشن کی جاچکی ہے، اس میں 52، 53 لاکھ لوگ ہیں جن کی ویکسینیشن کی جاچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس سال کے آخر تک پورے پاکستان میں 7 کروڈ کے ہدف تک پہنچنا چاہتے ہیں لیکن خاص طور پر ہمارا ہدف ہے کہ جون اورجولائی کے مہینے میں قربانی کی عید آنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ اتنی زیادہ ویکسینیشن ہو کہ ہمیں زیادہ بندشیں نہ لگانی پڑیں، جس طرح عیدالفطر میں کرنا پڑا تھا۔
اسد عمر نے کہا کہ وفاقی حکومت نے کروڑ سے زائد ویکسین کا بندوبست کرلیا ہے اور مزید کروڑوں ویکسین آنے والی ہیں، صرف جون کے ایک مہینے میں ہمارے پاس ایک کروڑ ویکسین آئیں گی اور اسی طرح جولائی میں مزید ایک کروڑ سے زائد ویکسین آئیں گی۔
انہوں نے کہا کہ اب ویکسین کی دستیابی یقینی بنادی گئی ہے حالانکہ کئی ممالک میں ابھی مشکلات ہیں لیکن ہمارے پاس اب انتظامات ہوگئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ این سی او سی نے صوبوں سے رابطے کا کام کیا ہے اور صوبوں نے ویکسینیشن مراکز میں خاطر خوا اضافہ کیا ہے، یہی وجہ ہے جب ہم نے ویکسینیشن شروع کی تھی تو چند سو تعداد تھی اور ہم نے پرسوں 3 لاکھ 83 ہزار ویکسین لگائیں لیکن ہم اس تعداد کو دگنا کرنا چاہتے ہیں۔
سربراہ این سی او سی نے کہا کہ چند شہروں سے شکایات آرہی ہیں کہ ہمیں زیادہ انتظار کرنا پڑتا ہے، اس لیے صوبے اور وفاق کے علاقوں میں اس سہولت میں بڑھانی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب تک ہم تمام حکومتی اداروں سے مل جل کر کام ہورہے تھے لیکن اب دوسرے مرحلے پر جارہے ہیں، جس پر پوری قوم کو مل کر کام کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ویکسینیشن کا کام بھی صرف حکومت کی سطح پر نہیں بلکہ من حیث القوم کریں گے، ویکسین خریدنے کی ذمہ داری وفاق اٹھا چکا ہے، 18 سال سے زائد عمر کے وہ افراد جو ویکسین لگانے کے لیے تیار ہیں ان کے لیے وفاق مفت ویکسین فراہم کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ویکسینیشن کے لیے ایک بڑی مہم شروع ہونے جارہی ہے اور سب سے پہلے کل این سی او سی کا اجلاس ہورہا ہے جس میں میڈیا کے مالکان اور اینکرز کو بلایا ہے، ہم سب سے پہلے ان کی مدد حاصل کریں گے۔
اسد عمر نے بتایا کہ لوگوں تک آگاہی کے لیے میڈیا مؤثر کردار ادا کیا کہ طرح اس وبا سے بچنا ہے، ایس اوپیز پر عمل کرنا ہے اور ماسک کا استعمال کرنا ہے، اسی لیے ہم چاہتے ہیں کہ بڑی مہم کے ذریعے ویکسینیشن کی ضرورت کیا ہے اس بارے میں آگاہی دی جائے۔
انہوں نے اس کے بعد ہم پاکستان کے تمام بڑے کاروباری اداروں، بڑے شہروں کے چیمبرز، فیڈریشن آف پاکستان چیمبر، پاکستان بزنس کونسل، سمندر پار پاکستانی سرمایہ کاری چیمبر سمیت سب کو ہم دعوت دے رہے ہیں اور ان سب کو ہم اپنے کام میں شراکت دار بنانا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے پر علما کا اثر ہے اور ہم نے صدر مملکت سے درخواست کی ہے اسی ہفتے کے اندر علما کو بلائیں گے اور ان کے ذریعے بھی پیغام پہنچانے کی کوشش ہوگی کہ ہر پاکستانی تک یہ پیغام پہنچے کہ اپنی صحت کی حفاظت کرنا دین کے احکامات میں سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح وکلا کی بڑی تعداد ہے، اس لیے بار کونسلز اور صحافتی تنظمیوں کے ذریعے اس مہم کو آگے بڑھائیں گے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ویکسینیشن کے بارے میں بھی ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ایسے کام کرے کہ پاکستان کی مثال دی جائے تاکہ کاروبار چلے، کسی کے روزگار پرمنفی اثر نہ پڑے اور ایک معمول زندگی کی طرف رواں دواں ہوں۔
اسد عمر نے کہا کہ این سی او سی نے ہماری اس حکمت عملی کی منظوری دی ہے لیکن یہ حکمت عملی اس وقت کامیاب ہوگی جب ہر ایک پاکستانی اس کی منظوری دے اور اس پر اپنا حصہ بھی ڈالے گا تو ہم مزید بہتری کی جانب جائیں گے۔