اسلام آباد: (سچ خبریں) پنجاب انتخابات اور ریویو اینڈ ججمنٹس ایکٹ سے متعلق کیس کی سماعت میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے ایک مکمل انصاف کا ٹیسٹ ہے، اپیل میں کیس کو دوبارہ سنا جاتا ہے، سوال یہ ہے کہ نظر ثانی کس بنیاد پر ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پنجاب انتخابات اور ریویو اینڈ ججمنٹس ایکٹ سے متعلق کیسز کی سماعت کی۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تک فریقین کو اپنا کیس پیش کرنے کا پورا موقع ملتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے نظرثانی کا دائرہ کار محدود رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 کے تحت سپریم کورٹ براہ راست مقدمہ سنتی ہے، آرٹیکل 184/3 میں نظرثانی کا دائرہ کار اسی وجہ سے وسیع کیا گیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ نظرثانی کا دائرہ وسیع ہونے سے فریقین عدالت کو پوری طرح قائل کر سکیں گے، دائرہ کار محدود ہونے پر کئی متاثرہ افراد نظرثانی دائر ہی نہیں کرتے تھے، قانون میں وسیع دائرہ کار کے ساتھ لارجر بینچ کی سماعت بھی اسی نظریے سے شامل کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لارجر بینچ کا مطلب یہ نہیں کہ پہلے فیصلہ کرنے والے ججز اس میں شامل نہیں ہوں گے بلکہ اگر تین رکنی بینچ کسی کیس کا فیصلہ کرے گا تو اس پر نظرثانی میں ان کے ساتھ مزید دو ججز کیس سنیں گے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ کے دونوں نکات نوٹ کر لیے اب آگے بڑھیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ میں 10 منٹس دلائل دینا چاہتا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو ہم مہمان کے طور پر بلاتے ہیں، ہم ابھی آپ کا کیس نہیں سن رہے، پہلے اٹارنی جنرل دلائل دے رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کل سپریم کورٹ کا 184 (3) پر نقطہ نظر دوبارہ منظور الہٰی کیس والا ہو گیا تو اس سے آج کے قانون پر فرق نہیں پڑتا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کا پوائنٹ نوٹ کر لیا ہے آگے چلیں۔
اٹارنی جنرل نے دلائل میں بھارتی سپریم کورٹ کے 2002 کیوریٹو ریویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے کہا کہ انصاف دینا کسی فیصلے کے حتمی ہونے سے کم اہم نہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ مکمل انصاف ہی خدائی منشا ہے۔
اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نظر ثانی تو نظر ثانی ہی رہتی ہے، اسے اپیل کا درجہ تو پھر بھی حاصل نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مسابقتی ایکٹ، الیکشن کمیشن فیصلوں کے خلاف اپیل موجود ہے، سنگین غداری کیس میں بھی اپیل کا حق دیا گیا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ان تمام قوانین میں فیصلے کے خلاف اپیل کا ذکر ہے، یہاں اس قانون میں آپ نظر ثانی کو اپیل بنانے کی بات کر رہے ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے ایک مکمل انصاف کا ٹیسٹ ہے اور بھارتی قانون میں بھی یہی ہے کہ اپیل میں کیس کو دوبارہ سنا جاتا ہے، ہمیں اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ ہم 184 (3) کے خلاف کسی بھی ریمیڈی کو ویلکم کریں گے اگر اس کو احتیاط کے ساتھ کیا جائے، سوال یہ ہے نظر ثانی کس بنیاد پر ہونی چاہیے۔
عدالت نے سماعت پیر کے روز ایک بجے تک کے لیے ملتوی کر دی۔
خیال رہے کہ 7 جون کو سپریم کورٹ نے پنجاب میں انتخابات کرانے کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرِثانی درخواست اور ریویو آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر ایک ساتھ سماعت کا فیصلہ کیا تھا۔