سچ خبریں: ایک فوجی ماہر نے 4000 فلسطینی مجاہدین کی ہلاکت کے بارے میں صیہونیوں کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ 115 دن کی جنگ کے بعد تل ابیب پر راکٹ داغے جانا غیر معمولی ہے۔
الجزیرہ نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق اس چینل کے عسکری اور اسٹریٹجک امور کے تجزیہ کار فائز الدویری نے اس بات پر تاکید کی ہے کہ فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک کی عسکری شاخ “القسام بٹالینز” کی کامیابی ہے کہ اسرائیل کے غزہ پر حملے کے 115ویں دن جنوبی غزہ سے تل ابیب تک راکٹ داغے گئے جو حیرت انگیز ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان فورسز کے عناصر کے پاس کنٹرول اور کمانڈ کی مکمل طاقت حاصل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ میں صیہونیوں کے لیے سب سے بڑا چینلج کیا ہے؟صیہونی رپورٹر کی زبانی
القسام بریگیڈز نے گزشتہ روز اعلان کیا تھا کہ انہوں نے فلسطینی شہریوں کے خلاف صہیونی جرائم کے جواب میں تل ابیب اور مقبوضہ علاقوں کے دیگر شہروں پر راکٹ فائر کیے ہیں، ان شہروں میں خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے اور اسرائیلی پناہ گاہوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
الدویری نے کہا کہ اس حملے کا روحانی اثر اس کے مادی اثرات سے کہیں زیادہ ہے، یہ میزائل غیر آباد علاقوں میں گر سکتے ہیں یا مار گرائے جا سکتے ہیں، لیکن مقبوضہ علاقوں میں مختلف جماعتوں کے لیے پیغامات اس حملے کے اہم ترین عوامل ہیں۔
عسکری امور کے اس ماہر نے اس حملے کے پیغامات کا جائزہ لیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ مزاحمت نے اس میزائل حملے سے یہ ظاہر کیا ہے کہ اس نے غزہ کے جنگی علاقوں سے مقبوضہ علاقوں کے کسی بھی حصے پر راکٹ داغنے کی اپنی طاقت نہیں کھوئی ہے، اس کے پاس لڑائی جاری رکھنے کی اور یہ اپنے متاثر کن میزائلوں کے ذخیرے کو برقرار رکھنے کی طاقت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان حملوں نے اسرائیلی معاشرے کے لیے ثابت کر دیا کہ صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو جب حماس کی عسکری صلاحیتوں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہیں، کیونکہ غزہ اور اس کے جنوب سے اس تحریک کے راکٹ اب بھی مقبوضہ علاقے کی طرف داغے جاتے ہیں۔
الدویری نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ غزہ شہر کا 80 فیصد حصہ جہاں سے ممکنہ طور پر اس علاقے سے راکٹ داغے گئے ہیں، صہیونی دشمن کے محاصرے میں ہے، الدویری نے تاکید کی کہ اس سے اس آپریشن کی اہمیت اور حماس کی طاقت کا پتہ چلتا ہے۔
اس عسکری ماہر نے گزشتہ عرصے کے دوران غزہ کی پٹی کے جنوب میں واقع خان یونس شہر سے 3 دیگر بٹالین کے انخلاء کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ انخلاء بہت سی وجوہات کی بنا پر کیا گیا ہے، جن میں سے ایک اس کا نقصان یا ان یونٹس کی جنگی طاقت میں کمی ہے۔
اس کے علاوہ غزہ کے دوسرے علاقوں میں بھی ان یونٹوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور انہیں وہاں تعینات کیا جا سکتا ہے، گزشتہ روز صیہونی حکومت نے جنوبی غزہ میں خان یونس کے علاقے سے مزید دو بٹالین کو واپس بلا لیا۔
مزید پڑھیں: غزہ کی جنگ اسرائیل کے لئے سب سے تباہ کن جنگ
الدویری نے خان یونس کے مغرب میں القسام بٹالین کے 4000 فلسطینی مجاہدین کی ہلاکت کے صیہونی دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ دعوے جنگ کی اصل صورتحال سے متصادم ہیں کیونکہ اگر اتنی تعداد میں مزاحمتی عناصر مارے جاتے تو یقینی طور پر میدان میں اس کے اثرات مرتب ہوتے۔
اس حقیقت کے علاوہ کہ صیہونی حکومت نے مزاحمتی فورسز کے مارے جانے کے حوالے سے اپنے مبالغہ آمیز دعوے کی کوئی دستاویز فراہم نہیں کی ہے۔