اسلام آباد:(سچ خبریں) خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے سائفر کیس کی دو سماعتوں کے حوالے سے تحریری فیصلے جاری کر تے ہوئے کہا ہے کہ جوڈیشل کمپلیکس میں پیش نہ کرنے کی وجہ سابق وزیراعظم کی جان کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
خصوصی عدالت کی جانب سے 16 اگست اور 30 اگست کے تحریری فیصلے جاری کیے گئے ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ 16 اگست کو ایف آئی اے کی جانب سے چیئرمین پی ٹی آئی کے 14 روز جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔
اس حوالے سے بتایا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی توشہ خانہ کیس میں بطور مجرم پہلے سے اٹک جیل میں قید تھے اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی شق 13، 3 کے تحت جوڈیشل یا جسمانی ریمانڈ پر بھیجنا خصوصی عدالت کی صوابدید ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ زندگی اہم ہے اور معلوم نہیں چیئرمین پی ٹی آئی کو جیل سے باہر لانے پر کوئی حادثہ پیش آجائے لہٰذا غیر معمولی صورتحال کو مدنظر رکھ کر چیئرمین پی ٹی آئی کا جسمانی ریمانڈ منظور نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ جوڈیشل کمپلیکس میں پیش نہ کرنے اور اٹک جیل میں سماعت کی وجہ چیئرمین پی ٹی آئی کی جان کو تحفظ فراہم کرنا ہے اور ان کی غیر حاضری پر ان سے قانونی حق نہیں چھینا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی صحت بہت اہم ہے اور جیل سپرنٹنڈنٹ تمام تر اقدامات یقینی بنائیں۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ سائفر کیس عام نوعیت کا نہیں ہے، ایسے حساس کیس میں ریاست کی خودمختاری بھی شامل ہوتی ہے۔
عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ کو چیئرمین پی ٹی آئی کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ میں رکھنے کا حکم دیا جاتا ہے اور ان کی جان جان کو لاحق خطرات کے پیش نظر انہیں عدالت میں حاضر تصور کیا جائے گا۔
عدالت نے فیصلے میں مزید کہا کہ اس تمام تر صورتحال میں ایف آئی اے کی درخواست مسترد کی جاتی ہے اور ملزم عمران نیازی کو 30 اگست کو عدالت میں پیش کیا جائے۔
اس کے علاوہ اٹک جیل کے حوالے سے ہونے والی سماعت کے فیصلے میں عدالت نے کہا کہ اٹک جیل میں قید ملزم عمران خان کے ٹرائل کے حوالے سے نوٹیفکیشن وزارت قانون سے موصول ہوا اور اس مقدمے کی سماعت درج بالا وجوہات کے سبب ڈسٹرکٹ جیل کے احاطے میں ہوئی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ اس سے قبل 16 اگست کے آرڈر میں عمران خان نیازی کے 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ کی منظوری دی گئی تھی اور آج سماعت پر تفتیشی افسر نے اپنی رپورٹ پیش نہ کی جس پر انہیں اگلی سماعت یا اس سے قبل رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اس حوالے سے کہا گیا کہ عدالت نے عمران نیازی سے دریافت کیا کہ کہ انہیں جیل مینوئل کے مطابق دی جانے والی سہولیات کے حوالے سے کوئی شکایت، مسئلہ یا پریشانی ہے اور ملزم کی جانب سے جمع کرائی گئی گزارشات کی روشنی میں جیل سپرنٹنڈنٹ کو مینوئل کے مطابق ملزم کو تمام سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی جو عمران نیازی کی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔
انہوں نے لکھا کہ ملزم کی جانب سے ان کے وکیل نے دو درخواستیں جمع کرائیں جس میں ایک درخواست میں 29 اگست 2023 کے نوٹیفکیشن کو غیرقانونی قرار دینے کی استدعا کی گئی جبکہ دوسری درخواست میں استدعا کی گئی کہ کیس کی سماعت مستقل بنیادوں پر عام عدالت میں کی جائے اور اس تک عوام کو رسائی بھی دی جائے اور اس حوالے سے ریاست اور ایف آئی اے کو 2 ستمبر 2023 کو دلائل کے لیے نوٹس جاری کردیے گئے ہیں۔
دوسری جانب آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے کیس میں عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کو اپنے بیٹوں سے ٹیلیفون پر بات کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
چئیرمین پی ٹی آئی نے اپنے وکیل عمیرنیازی اور شیراز احمد کے ذریعے اپنے بیٹوں قاسم اور سلیمان سے ٹیلیفون پر بات کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ اپنے بیٹوں قاسم اور سلیمان سے ٹیلیفون یا واٹس ایپ پر بات کرنا چاہتا ہوں۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست منظور کر لی اور سپرٹنڈنٹ اٹک جیل کو بیٹوں سے والد کی ملاقات کرانے اور اس سلسلے میں انتظامات کرنے کی ہدایت بھی کردی۔