اسلام آباد: (سچ خبریں) چیف جسٹس عمر عطابندیال نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فیصل واڈا کی نااہلی کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران کہا کہ انتخابی معاملات میں الیکشن کمیشن اسپیشلسٹ ہے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک پر تین رکنی بینچ نے فیصل واڈا کی جانب سے تاحیات نااہلی کے الیکشن کمیشن کے خلاف دائر کی گئی درخواست پر سماعت کی۔
چیف جسٹس نے سماعت کے دوران کہا کہ الیکشن کمیشن کو مضبوط اور بااختیار بنانا چاہتے ہیں، نہیں چاہتے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ کوئی رٹ میں اڑاتا رہے۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ انتخابی معاملات میں الیکشن کمیشن اسپیشلسٹ ہے۔
فیصل واڈا کی تاحیات نااہلی کے حوالے سے چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے تاحیات نااہلی کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو حقائق کے تعین کے لیے مقدمہ ہائی کورٹ نے ہی بھیجا تھا، جس پر فیصل واڈا کے وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ کیا ہائی کورٹ کے کہنے سے الیکشن کمیشن عدالت بن جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار پر فیصلہ ہی نہیں دیا اور الیکشن کمیشن نے حقائق کا تعین بھی درست انداز میں نہیں کیا۔
فیصل واڈا کے وکیل کا کہنا تھا کہ امریکی سفارت خانے کے اہلکاروں پر جرح کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ فیصل واڈا نے شہریت چھوڑنے کے لیے رجوع کاغذات جمع کرانے کے بعد کیا تھا۔
وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ بطور سینیٹر فیصل واڈا پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔
فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے وسیم سجاد نے کہا کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں جو تاحیات نااہلی کا ڈیکلریشن دے سکے۔
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی رہنما فیصل واڈا کی درخواست پر مزید سماعت 19 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 6 اکتوبر کو سماعت میں ریمارکس دیے تھے کہ کیس میں تسلیم کیا گیا کہ غلطی ہوگئی نااہلی بنتی ہے مگر تاحیات نہیں، تاحیات نااہلی صادق اور امین کے اصول پر پورا نہ اترنے پر ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ ای سی پی نے فیصل واڈا کے خلاف دوہری شہریت پر نااہلی کی درخواستوں پر فیصلہ 23 دسمبر 2021 کو محفوظ کیا تھا۔
محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن نے فیصل واڈا کو آئین کے آرٹیکل 62 (ون) (ف) کے تحت تاحیات نااہل قرار دیا تھا جبکہ انہیں بطور رکن قومی اسمبلی حاصل کی گئی تنخواہ اور مراعات دو ماہ میں واپس کرنے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ ای سی پی نے فیصل واڈا کے بطور سینیٹر منتخب ہونے کا نوٹی فکیشن بھی واپس لے لیا تھا جبکہ ان کی جانب سے بحیثیت رکن قومی اسمبلی، سینیٹ انتخابات میں ڈالے گئے ووٹ کو بھی ‘غلط’ قرار دیا گیا تھا۔
فیصل واڈا پر الزام تھا کہ انہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں کراچی سے قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑتے ہوئے اپنی دوہری شہریت کو چھپایا تھا۔
فیصل واڈا نااہلی کیس 22 ماہ سے زائد عرصے تک زیر سماعت رہا، مذکورہ کیس پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی کیس پر سماعت ہوئی۔
فیصل واڈا کی دوہری شہریت کے خلاف قادر مندوخیل کی جانب سے 2018 میں درخواست دائر کی گئی تھی۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ جس وقت فیصل واڈا نے قومی اسمبلی کے انتخاب کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے اس وقت وہ دوہری شہریت کے حامل اور امریکی شہری تھے۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ فیصل واڈا نے انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے الیکشن کمیشن میں ایک بیانِ حلفی دائر کیا تھا کہ وہ کسی دوسرے ملک کے شہری نہیں ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ چونکہ انہوں نے جھوٹا بیانِ حلفی جمع کرایا تھا اس لیے آئین کی دفعہ 62 (1) (ف) کے تحت وہ نااہل ہیں۔
درخواست کی سماعت کے دوران سابق وزیر کے وکیل کا کہنا تھا کہ فیصل واڈا نے کوئی جھوٹ نہیں بولا، کاغذات نامزدگی جمع کروانے سے قبل انہوں نے اپنا غیر ملکی پاسپورٹ منسوخ کروا دیا تھا۔
سماعت کے دوران فیصل واڈا کے وکیل بیرسٹر معید نے ان کا پیدائشی سرٹیفکیٹ کمیشن میں جمع کروایا اور بتایا تھا کہ فیصل واڈا امریکی ریاست کیلی فورنیا میں پیدا ہوئے تھے اور پیدائشی طور پر امریکی شہری تھے۔