اسلام آباد:(سچ خبریں) سینیئر امریکی عہدیدار ڈاکٹر ڈفنا رینڈ نے کہا ہے کہ وہ امریکا اور پاکستان کے درمیان اتحاد کی حمایت اور پاکستانی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے امریکی حکومت کو متحرک کردار ادا کرنے پر زور دیں گی۔
امریکی دفتر خارجہ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر ڈفنا رینڈ نے یہ عزم پاکستانی سفارت خانے میں یوم پاکستان کی تقریب میں امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے اظہار خیال کرتے ہوئے کیا، تقریب میں امریکی حکومت اور پینٹاگون سمیت مختلف محکموں کے حکام نے شرکت کی۔
ڈاکٹر ڈفنا رینڈ نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’ہم ذراعت کے شعبے کو ماحولیاتی تبدیلی کے مطابق ڈھالنے اور معاشی ترقی اور تباہ شدہ انفرااسٹرکچر کی بحالی جیسے شعبوں میں اہم سرمایہ کاری کے لیے تمام پاکستانیوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ کس طرح ہم عوامی سفارت کاری، تکنیکی تعاون، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ، برآمد، درآمد اور تجارت میں نجی شعبے کے مؤثر کردار کو ممکن بنا سکتے ہیں، ہم اس اتحاد کی حمایت کے لیے پوری امریکی حکومت کو متحرک کریں گے‘۔
امریکا میں پاکستانی سفیر مسعود خان نے کہا کہ امریکا اور پاکستان کے درمیان لچکدار تعلقات ہیں، جو باہمی احترام اور دوستی کے اصولوں پر مبنی ہیں، یہ پاکستان اور امریکا کے لوگوں کے لیے ایک دیرینہ میراث ہے، ہم اس کی قدر کرتے ہیں اور ہم اس کو مزید پروان چڑھاتے رہیں گے’۔
ڈاکٹر ڈفنا رینڈ نے کہا کہ ’دونوں حکومتیں ان تعلقات کو مزید گہرا کرنے اور گرین الائنس کے لیے مل کر کام کرنے کا عزم کرتی ہیں‘۔
جہاں سرکاری بیانات تعاون کی نئی راہیں تلاش کرنے پر مرکوز تھے، وہیں منزل پر ہونے والی گفتگو پاکستان کی موجودہ صورتحال پر مرکوز تھی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے واشنگٹن میں جنوبی ایشیائی امور کے ماہر اسکالر پروفیسر مارون جی وین بام نے کہا کہ ’پاکستانی سیاست دان اکثر اقتدار کی دوڑ میں بےہنگم انداز میں مصروف رہتے ہیں لیکن خاص طور پر حالیہ دنوں میں ملک کا سیاسی منظرنامہ عجیب اور تشویشناک ہو گیا ہے‘۔
اکتوبر تک انتخابات میں تاخیر کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم حکومت کو کارکردگی دکھانے کے لیے وقت درکار ہے لیکن انتخابات میں مزید تاخیر بڑے پیمانے پر مظاہروں کو جنم دے سکتی ہے، جس سے مزید سیکورٹی فورسز کی تعیناتی کی ضرورت ہوگی اور فوجی مداخلت کے امکانات مزید بڑھ جائیں گے۔
تقریب میں موجود پاکستانی سیاسی کارکن ڈاکٹر جاوید منظور نے اعتراف کیا کہ عمران خان کی مقبولیت، اُن کی برطرفی کے بعد سے مسلسل بڑھ رہی ہے، اگر وہ بڑے پیمانے پر عوامی حمایت کے ساتھ اقتدار میں واپس آئے تو اِس ’ نئے عمران خان’ سے نمٹنا اور بھی مشکل ہوگا۔
ایک سینیئر پاکستانی سفارت کار نے (شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر) گفتگو کرتے ہوئے تمام سیاسی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ ایک ساتھ بیٹھیں اور کوئی راستہ تلاش کریں کیونکہ اس کے علاوہ کوئی حکمت عملی کام نہیں آئے گی۔
پروفیسر توقیر حسین، جو جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں ڈپلومیسی پڑھاتے ہیں، نے اس تجویز سے اتفاق کیا، انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ نہ ختم ہونے والا بحران پاکستان کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے‘۔
تقریب میں ایک اچھی خبر کا بار بار ذکر کیا گیا کہ 23 مارچ کو امریکا میں بھی یوم پاکستان کے طور پر منانے کے لیے ایک قرارداد امریکی ایوان نمائندگان میں پیش کی گئی۔
پاکستانی سفیر مسعود خان نے قرارداد پیش کرنے پر کانگریس کے رکن جمال بومن کا شکریہ ادا کیا، انہوں نے امریکن پاکستان ایڈووکیسی گروپ بالخصوص اس کے صدر علی رشید کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے مذکورہ قرارداد پر جامل بومن کے ساتھ تندہی سے کام کیا۔