اسلام آباد(سچ خبریں) وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ امریکا طالبان کی حکومت آنے کے بعد سے تذبذب کا شکار ہے، امریکی قربانی کے بکرے کی تلاش میں لگے ہیں، افغانستان کی صورتِ حال پر صدر بائیڈن کو نشانہ بنانا ناانصافی ہے، ہم جانتے تھے کہ آخر کار مسئلہ جنگ سے حل نہیں ہو گا، میں جنگ سے مسئلے کے حل کا مخالف ہوں۔
ترک ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان نے امریکی صدر جو بائیڈن کے فون نہ کرنے کے سوال پر کہا کہ صدر بائیڈن اس وقت دباؤ میں ہیں، امریکی صدر جو بائیڈن تنقید کی زد میں ہیں، اس لیے مجھے ان سے ہمدردری ہے، امریکی صدر سے ہمدردی ہے کیونکہ کابل ایئر پورٹ کے واقعات کے باعث ان پر پبلک اور میڈیا کادباؤ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ امریکی صدر جو بائیڈن پر ہے کہ وہ کب بات کرتے ہیں، تعلقات میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے، سرد جنگ میں پاکستان امریکا کے ساتھ تھا، ضروری ہے کہ امریکا افغانستان کے معاملے پر کردار اداکرے، صدور اور ریاست کے سربراہان کی بات چیت رسمی ہوتی ہے، ہماری انٹیلی جنس کے سربراہان امریکی ہم منصبوں سے رابطے میں ہیں، ہمارے وزیرِ خارجہ امریکی وزیرِ خارجہ سے رابطے میں ہیں۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ ہم خوف زدہ تھے کہ کابل پر قبضہ کرتے وقت وہاں خوں ریزی ہوگی، غیر متوقع طور پر اختیارات کا بہت پر امن انتقال ہوا، افغان حکومت کا اپنے بجٹ کا 70 سے 75 فیصد انحصار بیرونی امداد پر تھا، طالبان کے آنے کے بعد افغانستان کی بیرونی امداد ختم ہونے کاخدشہ ہے، اگر افغانستان کو امداد فراہم نہیں کی جائے گی تو وہاں انسانی بحران جنم لے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ افغانستان کے تمام ہمسایوں سے مشاورت کریں گے، ہمسایوں سے مشاورت کے بعد طالبان کی حکومت تسلیم کی جائے گی، پاکستان اگر تنہا طالبان کو تسلیم کر بھی لے تو اس سے زیادہ فرق نہیں پڑنا، ترجیحاً یہ ہونا چاہیئے کہ امریکا، یورپ، چین اور روس بھی طالبان کی حکومت تسلیم کریں، جلد یا بدیر امریکا کو طالبان کو تسلیم کرنا پڑے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ عجیب بات ہے کہ اگر آپ امریکی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں تو آپ امریکا مخالف ہیں، میں افغان جنگ کا حصہ بننے پر پاکستان پر بھی اعتراض کیا تھا، افغان جنگ میں ہمیں 150 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا، اپنی غلطی سے نظریں ہٹانے کے لیے ہمیں قربانی کا بکرا بنانا تکلیف دہ ہے۔
وزیرِ اعظم نے بتایا کہ پاک فوج نے 2014ء میں شمالی وزیرستان میں بڑا آپریشن کیا، پاکستان میں دہشت گرد حملے کرنے والی ٹی ٹی پی کو باہر کر دیا گیا جو افغانستان چلے گئے، ٹی ٹی پی کو افغان انٹیلی جنس ایجنسیز اور بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ نے مدد کی، ’را‘ نے ٹی ٹی پی کو پاکستان میں حملے کرنے کے لیے استعمال کیا، اس کے ذریعےپاکستان میں کام کرنے والے چینی شہریوں کو نشانہ بنایا گیا جبکہ بلوچستان میں بھی کئی حملے کرائے گئے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ 40 روز سے ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے مگر صورتِ حال پہلے جیسی نہیں، کچھ پاکستانی طالبان ہماری حکومت سے امن اور مصالحت کے لیے بات کرنا چاہتے ہیں، ہم ٹی ٹی پی میں کچھ گروپس کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں، ہوسکتا ہے کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکیں، میں مسئلے کے فوجی حل کے بجائے سیاسی حل پر یقین رکھتا ہوں۔
وزیرِ اعظم کا کہنا ہے کہ افغان حکومت گر گئی تو سب سے بڑے نقصان میں افغان عوام ہوں گے، افغانستان کی تاریخ پاکستان کی تاریخ سے جڑی ہے، افغانستان کی آدھی آبادی پشتون ہے، پاکستانی طالبان نے پاکستان کو امریکا کا ساتھی قرار دے کر حملے کرنے شروع کر دیئے، جنرل کیانی نے اوباما کو آگاہ کیا تھا کہ افغان مسئلے کا فوجی حل نہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکا اور جارج بش کا پاکستان کو یہ کہنا ہے کہ ہمارے ساتھ ہو یا نہیں تکبرانہ مؤقف تھا، امریکی پالیسیوں پر تنقید کریں تو امریکا مخالف اور طالبان کا حامی کہا جاتا ہے، نائن الیون واقعے میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا، افغانستان آزاد سوچ رکھنے والی جمہوری قوم ہے، افغان قوم غیر ملکی تسلط تسلیم نہیں کرتی۔