اسلام آباد: (سچ خبریں) الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف کی جانب سے سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ نا اہلی ریفرنس پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
الیکشن کمیشن میں توشہ خانہ تحائف ظاہر نہ کرنے پر عمران خان نااہلی ریفرنس پر سماعت ہوئی، دوران سماعت مسلم لیگ (ن) کے وکیل خالد اسحاق نے مؤقف اپنایا کہ ریفرنس میں سوال عمران خان کی جانب سے تحائف ظاہر نہ کرنے کا تھا، عمران خان نے جواب میں تحائف کا حصول تسلیم کیا ہے، عمران خان نے یہ بھی تسلیم کیا کہ تحائف گوشواروں میں ظاہر نہیں کیے۔
خالد اسحاق نے کہا کہ جواب میں کہا گیا کسی نے بھی روزمرہ ضرورت کی چیزیں ظاہر نہیں کیں، عمران خان کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ تسبیح اور ٹائی تو میں نے بھی ظاہر نہیں کی ہوئی، مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے کہا کہ کمیشن میں کیس عمران خان کا ہے کسی اور رکن اسمبلی کا نہیں۔
خالد اسحاق کا کہنا تھا کہ ظاہر نہ کیے گئے ایک کف لنک کی قیمت 57 لاکھ روپے ہے، جواب میں دوسری دلیل یہ دی گئی کہ کچھ تحائف مالی سال کے دوران ہی فروخت کر دیے، عمران خان کے بقول فروخت کئے گئے تحفے ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں۔
ممبر الیکشن کمیشن کے پی اکرام اللہ نے کہا کہ تحائف خرید کر فروخت کرنے اور ظاہر نہ کرنے کا نتیجہ کیا ہوگا؟ مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے کہا کہ عمران خان کے بقول ایف بی آر گوشواروں میں فروخت شدہ تحائف کی آمدن ظاہر کی ہے، الیکشن کمیشن اور ایف بی آر کے گوشوارے الگ الگ ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے کہا کہ عمران خان کے بقول الیکشن کمیشن مقدمہ سننے کا مجاز ہی نہیں ہے، ننکانہ صاحب کی نشست پر ضمنی انتخابات کے دوران بھی توشہ خانہ تحائف کا اعتراض اٹھا، ریٹرننگ افسر کو جواب میں عمران خان نے کہا الیکشن کمیشن مجاز فورم ہے۔
خالد اسحاق نے کہا کہ اثاثے ظاہر نہ کرنے پر نااہل الیکشن کمیشن ہی کر سکتا ہے، ذاتی استعمال کی اشیا ظاہر کرنا ارکان اسمبلی کے لیے ضروری ہے، کیا پچاس لاکھ کی گھڑی ذاتی استعمال کی چیز نہیں ہے؟ اعتراض کیا گیا کہ الیکشن کمیشن انتخابات کے چار ماہ بعد کسی کو نااہل نہیں کر سکتا۔
ممبر الیکشن کمیشن سندھ نثار درانی نے کہا کہ ممکن ہے اثاثے ظاہر کرنے میں غلطی ہوگئی ہو، غلطی سے اثاثے ظاہر نہ ہوں تو نااہلی نہیں ہوتی، خالد اسحاق نے کہا کہ اگر غلطی ہوئی ہے تو تسلیم کریں، ایک اعتراض عمران خان نے 62 ون ایف لگانے کے اختیار پر کیا ہے، فیصل واووڈا کیس میں کمیشن نے آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق کیا۔
مسلم لیگ (ن) کے وکیل خالد اسحاق نے دوران دلائل پانامہ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پانامہ نظرثانی کیس میں اعتراض کیا تھا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ٹرائل کے بغیر نہیں ہوسکتا، عدالت نے کہا نوازشریف نے تنخواہ مقرر ہونے سے انکار نہیں کیا تھا۔
خالد اسحاق نے کہا کہ عدالت نے کہا اگر حقائق متنازع نہ ہوں تو ٹرائل کی ضرورت نہیں، عمران خان حلفیہ بیان پر جھوٹ بولنے کے مرتکب ہوئے ہیں، اس کے ساتھ ہی مسلم لیگ (ن) کے وکیل خالد اسحاق کے دلائل مکمل ہوگئے۔
عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر نے قرار دیا ان کے پاس عمران خان کی نااہلی کیلئے ٹھوس مواد موجود ہے، اسپیکر نے ریفرنس میں عمران خان کے 2017 اور 2018 کے گوشواروں کا حوالہ دیا، آرٹیکل 62 ون ایف کے لیے عدالت کی ڈیکلریشن لازمی ہے۔
علی ظفر نے کہا کہ اسپیکر کے پاس فیصلہ کرتے وقت کوئی عدالتی ڈیکلریشن موجود نہیں تھا،اسپیکر آرٹیکل 62 ون ایف کا ریفرنس بھیجنے کا اہل ہی نہیں ہے، یہ ایک سیاسی کیس ہے، ثابت کروں گا جو تحائف ظاہر کرنا ضروری تھے وہ کیے گئے ہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ 62 ون ایف کے تحت نا اہلی کا فیصلہ کرنا عدالتوں کا اختیار ہے، کیا کسی عدالت نے ثابت کیا کہ عمران خان صادق اور امین نہیں،الیکشن کمیشن عدالت نہیں بلکہ کمیشن ہے،جب تک ہائیکورٹ کی نگرانی نہ ہو تو کوئی ادارہ عدالت نہیں بن جاتا۔
بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن خود کو عدالت قرار نہیں دے سکتا،الیکشن کمیشن کو اختیار نہیں کہ ارکان کی ایمانداری کا تعین کر سکے، سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں۔
ممبر کے پی اکرام اللہ نے کہا آپ کے مطابق کوئی بے ایمان ہو بھی تو کمیشن کہ نہیں سکتا، ممبر الیکشن کمیشن پنجاب نے کہا کہ کمیشن اگر کچھ کر نہیں سکتا تو اسپیکر کے ریفرنس بھیجنے کی شق کیوں ڈالی گئی؟
علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 63(1) کے تحت کوئی رکن سزا یافتہ ہو تو سپیکر نااہلی کا ریفرنس بھیجتا ہے،عمران خان کیخلاف کوئی عدالتی فیصلہ ہے نا ہی سزا یافتہ ہیں، مسلم لیگ (ن) کے وکیل خالد اسحاق نے جواب الجواب دیا۔
خالد اسحاق نے کہا کہ عمران خان نے تحائف وصول کرنے اور فروخت کرنے کو تسلیم کیا، تحائف کس تاریخ کو اور کتنے کے فروخت کئے نہیں بتایا گیا، عمران خان نے اپنے لندن فلیٹ کی رسیدیں دی تھیں لیکن تحائف فروخت کی نہیں دیں،ایک اکائونٹ میں موجود 5 کروڑ روپے کو فروخت شدہ تحائف کی رقم ظاہر کیا گیا۔
ممبر کے پی اکرام اللہ نے کہا کہ ریفرنس میں آرٹیکل 63 کا ذکر ہے کیا اس کے تحت اثاثے چھپانے پر نااہلی ہوسکتی ہے؟
اس دوران خالد اسحاق نے جواب الجواب مکمل کرلیا جس کے بعد الیکشن کمیشن نے فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔
واضح رہے کہ عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف پیش کیے گئے۔
بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔
جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادائیگی کر کے خریدا۔
اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کف لنکس، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔