لاہور 🙁سچ خبریں) لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی نیب کی جانب سے القادر ٹرسٹ سے متعلق انکوائری میں 23 مئی تک حفاظتی ضمانت منظور کرلی۔
بشریٰ بی بی سخت حفاظتی انتظامات میں اپنے شوہر کے ہمراہ بینچ کے سامنے پیش ہوئیں۔ کمرہ عدالت کی طرف جاتے ہوئے اس جوڑے کو سفید چادر سے ڈھانپ دیا گیا تھا، جو ان کے لیے ایک قسم کا پردہ تھا۔
ابتدائی سماعت کے دوران جسٹس سید شہباز علی رضوی اور جسٹس شکیل احمد پر مشتمل بینچ نے بشریٰ بی بی کی عدم حاضری پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔
بینچ نے ایڈووکیٹ خواجہ حارث کو ہدایت کی کہ وہ دوپہر 2 بج کر 15 منٹ پر اپنے مؤکل کی پیشی کو یقینی بنائیں۔
تاہم درخواست گزار عدالت میں تاخیر سے پیش ہوئیں، وکیل حارث نے بینچ کو یقین دلایا کہ درخواست گزار مستقبل میں صحیح وقت پر پیش ہوں گی۔
وکیل نے بینچ سے کہا کہ وہ کم از کم 10 دن کے لیے ضمانت دے تاکہ درخواست گزار ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے ٹرائل کورٹ سے آسانی سے رجوع کر سکے۔ وکیل نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ درخواست گزار کی گرفتاری کا امکان ہے۔
بینچ نے درخواست منظور کرتے ہوئے بشریٰ بی بی کی 23 مئی تک حفاظتی ضمانت منظور کر لی۔ خیال رہے کہ ان کے شوہر اور سابق وزیراعظم عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے اسی کیس میں 31 مئی تک ضمانت مل چکی ہے۔ ’
یہ سب 5 سال پہلے اس وقت شروع ہوا جب برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے خاندان کے ساتھ 19 کروڑ پاؤنڈز مالیت کے تصفیے پر اتفاق کیا۔
این سی اے کے جاری کردہ بیان کے مطابق تصفیے میں برطانیہ کی ایک جائیداد، 1 ہائیڈ پارک پلیس، لندن، شامل تھی جس کی مالیت تقریباً 5کروڑ پاؤنڈ تھی اور تمام رقم ملک ریاض کے منجمد اکاؤنٹس میں آ گئیں۔
اسی سال جب یہ پتا چلا تھا کہ ملک ریاض نے کراچی کے مضافات میں ضلع ملیر میں ہزاروں ایکڑ اراضی غیر قانونی طور پر حاصل کی تو سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس کے عوض ملک ریاض کی رئیل اسٹیٹ کمپنی، بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ کی جانب سے 460 ارب روپے کے سیٹلمنٹ واجبات کی پیشکش قبول کر لی تھی۔3
این سی اے کے فیصلے کے چند گھنٹے بعد ملک ریاض نے ٹوئٹ کیا تھا کہ برآمد شدہ رقم، سپریم کورٹ کے 460 ارب روپے جرمانے کی ادائیگی میں جائیں گے۔
بعدازاں جب این سی اے نے 3 دسمبر کو اپنے فیصلے کا اعلان کیا تو یہ رقم حکومت پاکستان کے اکاؤنٹ کی بجائے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹس میں منتقل کر دی گئی جبکہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر نے دعویٰ کیا تھا کہ رقم براہ راست ریاست کے پاس آئے گی۔
بعد میں اس ابہام کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے جواب دیا تھا کہ ’کیا سپریم کورٹ حکومت کا حصہ نہیں ہے؟ لہذا اگر پیسہ سپریم کورٹ میں جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پیسہ ریاست کے پاس آتا ہے‘۔
جون 2022 میں یہ معاملہ ایک مبینہ آڈیو لیک ہونے کے بعد دوبارہ سامنے آیا جس میں مبینہ طور پر ملک ریاض اور ان کی بیٹی کے درمیان ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی تھی، جس میں دونوں کو عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی دوست فرح خان عرف گوگی کے فرضی مطالبات کے بارے میں بات کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔
عمران خان کی حکومت کے کچھ مبینہ احسانات پر، خاتون نے اپنے والد کو بتایا کہ فرح نے انہیں بتایا تھا کہ (سابق) خاتون اول نے ان سے 3 قیراط کی ہیرے کی انگوٹھی قبول نہ کرنے کو کہا تھا اور 5 قیراط کا مطالبہ کیا تھا۔
گزشتہ برس یکم دسمبر کو بظاہر رئیل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے قریبی ساتھیوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے ریاض اور دیگر فائدہ اٹھانے والوں کو پیش ہونے کو کہا۔
نیب کے نوٹس میں کہا گیا کہ اختیارات کے غلط استعمال، مالی فوائد اور اعتماد کی مجرمانہ خلاف ورزی کے الزامات کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ علی ریاض ملک اور دیگر نے حکومت پاکستان کو فنڈز کی واپسی کے لیے برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے ساتھ عدالت سے باہر تصفیہ کا معاہدہ کیا۔
مزید برآں میسرز بحریہ ٹاؤن نے القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے لیے موضع برکالا، تحصیل سوہاوہ، ضلع جہلم میں واقع 458 ایکڑ، چار مرلہ اور 58 مربع فٹ زمین عطیہ کی ہے، لہذا آپ کے پاس ہر وہ معلومات/شواہد ہیں جو مذکورہ جرم (جرموں) کے کمیشن سے متعلق ہیں۔