?️
اسلام آباد: (سچ خبریں) دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ افغان طالبان افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی پناہ گاہوں کے بارے میں پاکستان کے تحفظات پر مثبت ردعمل دکھا رہے ہیں، جو دونوں ملکوں کے درمیان کشیدہ تعلقات میں بہتری کی امید کی ایک محتاط جھلک ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے صحافیوں کو بتایا کہ ’دہشت گردوں کو حاصل پناہ گاہیں ایک بڑی رکاوٹ ہے، دونوں ممالک کے درمیان اس بارے میں فعال بات چیت جاری ہے اور افغان فریق ہمارے تحفظات کو سنجیدگی سے لے رہا ہے‘۔
افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی موجودگی اسلام آباد اور طالبان حکومت کے درمیان طویل عرصے سے تنازع کا باعث بنی ہوئی ہے، 2021 میں طالبان کے کابل میں دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پاکستان ان پر الزام عائد کرتا رہا ہے کہ وہ ہزاروں ٹی ٹی پی جنگجوؤں کو پناہ دے رہے ہیں، جو خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں تیزی لائے ہیں۔
نومبر 2022 میں پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان ایک کمزور جنگ بندی کی ناکامی کے بعد تشدد میں اضافہ ہوا تھا، پاکستانی حکام کا اندازہ ہے کہ افغانستان میں 3 ہزار سے 4 ہزار کے درمیان کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجو سرگرم ہیں، جنہیں اسلام آباد کے مطابق طالبان کی نظریاتی ہم آہنگی اور عملی خاموشی سے حوصلہ ملا ہے، کابل ان الزامات کو مسلسل مسترد کرتا آیا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ برسوں میں تعلقات تناؤ کا شکار رہے اور پاکستان خبردار کرتا رہا ہے کہ سرحد پار سے جاری عسکریت پسندی تعلقات کو پٹڑی سے اتار سکتی ہے، تاہم نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار کے 19 اپریل کو کابل کے دورے کے بعد تعلقات میں بہتری آنا شروع ہوئی۔
اس دورے میں تجارت، سرحدی نظم و نسق اور سیکیورٹی تعاون جیسے امور پر بات چیت ہوئی، جسے حکام نے بیجنگ کی حوصلہ افزائی سے پیدا ہونے والی ’حکمت عملی کی حد تک برف پگھلنے‘ سے تعبیر کیا۔
اعلیٰ سطح کے روابط کی بحالی، بشمول سفارتی سطح پر ناظم الامور سے سفیر کے عہدے تک ترقی، اس بات کی علامت ہے کہ دونوں فریق پرانے مسائل کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں۔
اتوار کو وزیر داخلہ محسن نقوی نے کابل کا دورہ کیا تھا جہاں وہ افغانستان کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی سے ملے، اس ملاقات میں سرحدی سیکیورٹی، ٹی ٹی پی کے خطرے، منشیات کی اسمگلنگ کی روک تھام اور مہاجرین کی واپسی جیسے امور زیر بحث آئے۔
پاکستانی حکام کے مطابق طالبان انتظامیہ نے اصولی طور پر اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ ٹی ٹی پی جنگجوؤں کو مرحلہ وار سرحد سے دور غیر مسلح اور منتقل کیا جائے گا، جو اس مسئلے کے اعتراف کی ایک نادر مثال ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے کہا کہ ’تکنیکی سطح پر بات چیت جاری ہے، دونوں فریق مثبت انداز میں مصروف ہیں اور سیکیورٹی کے شعبے میں تعاون کو دونوں برادر ہمسایہ ملکوں کے مجموعی تعلقات میں بہتری کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’تجارت کے حوالے سے بھی کئی مسائل ہیں جیسے کہ لاجسٹکس، کسٹمز اور دیگر طریقہ کار، جنہیں حل کیا جا رہا ہے اور اس سے جو رفتار پیدا ہوئی ہے وہ نظر آ رہی ہے، تجارت میں بھی اچھا پیش رفت ہو رہی ہے‘۔
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی آئندہ ہفتوں میں اسلام آباد کے دورے پر آئیں گے تاکہ ان معاملات پر مزید بات چیت کی جا سکے۔
ڈار-روبیو ملاقات
ترجمان دفتر خارجہ نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ وزیر خارجہ اسحٰق ڈار آج واشنگٹن میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے ملاقات کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں تصدیق کرتا ہوں کہ ملاقات طے شدہ ہے، جس میں دوطرفہ امور کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ اور ایران کی صورتحال سمیت علاقائی و عالمی معاملات پر تفصیلی گفتگو ہو گی‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان اور بھارت کے معاملے پر بھی تبادلہ خیال ہوگا، اور ہم امریکا کے اس کردار کے شکر گزار ہیں جس نے کشیدگی کم کرنے اور جنگ بندی کی طرف لے جانے میں مدد دی‘۔
اسحٰق ڈار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کی صدارت کے دوران نیویارک میں ہونے والی سرگرمیوں میں شرکت اور واشنگٹن میں دوطرفہ ملاقاتوں کے لیے امریکا کے دورے پر ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع حالیہ مہینوں میں اس وقت عالمی توجہ کا مرکز بنا جب 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ایک حملے میں 26 افراد ہلاک ہو گئے، جس کے بعد مئی میں دونوں ملکوں کے درمیان ایک مختصر مگر شدید عسکری تصادم ہوا۔
بھارت نے پاکستان میں 7 مئی کو فضائی حملے کیے، جس کے جواب میں پاکستان نے ’آپریشن بنیانُ مرصوص‘ کے تحت بھارتی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا، یہ جھڑپیں 1971 کے بعد سب سے شدید تصور کی جاتی ہیں۔
اس ممکنہ جنگ کو روکنے کے لیے امریکا نے سفارتی کردار ادا کیا، جس میں وزیر خارجہ مارکو روبیو اور نائب صدر جے ڈی وینس نے دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کی، 10 مئی کو جنگ بندی کا اعلان کیا گیا، جسے اسلام آباد نے امریکی کوششوں کا نتیجہ قرار دیا۔
شفقت علی خان نے کہا کہ ’ہمارا موقف ہے کہ مسائل کو سفارتکاری اور پرامن ذرائع سے حل کیا جانا چاہیے اور ہم اس پر قائم ہیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم تمام ممالک کے ساتھ نیک نیتی سے رابطہ رکھتے ہیں اور بھارت کو مذاکرات کی میز پر آنے کی دعوت دیتے رہتے ہیں تاکہ مسائل کا پرامن حل نکل سکے، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ بھارت کون سا راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، ہمارا موقف واضح ہے، ہم نے امریکا کی ثالثی اور حالیہ بحران کے خاتمے میں اس کے کردار کو تسلیم کیا ہے اور اس کا شکریہ ادا کیا ہے لیکن بالآخر فیصلہ بھارت کو کرنا ہے کہ وہ کیا پالیسی اختیار کرتا ہے‘۔
مشہور خبریں۔
آئی ایم ایف نے پاکستان میں غیر معمولی منفی خطرات سے خبردار کردیا
?️ 11 مئی 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) طویل مدتی قرض پروگرام کے بارے میں حکومت
مئی
صیہونیوں کا فلسطینیوں کے سامنے بے بسی کا اظہار
?️ 20 جون 2023سچ خبریں:والہ نیوز بیس کے رپورٹر امیر بوخبوط نے اس حوالے سے
جون
ایرانی صدر کی شہادت پر فلسطینی مزاحمتی کمیٹیوں کا ردعمل
?️ 20 مئی 2024سچ خبریں: فلسطینی مزاحمتی کمیٹیوں نے گزشتہ رات کے ہوائی حادثے کے
مئی
کابل پر امریکی حملہ دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے: طالبان
?️ 3 اگست 2022سچ خبریں: طالبان کی عبوری حکومت کے دوسرے نائب وزیر اعظم
اگست
شہباز شریف قطر پہنچ گئے
?️ 23 اگست 2022اسلام آباد: (سچ خبریں) وزیر اعظم شہباز شریف قطر کے امیر شیخ
اگست
مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا غاضبانہ قبضہ زیادہ دیر نہیں رہ سکتا۔ عطاء تارڑ
?️ 5 اگست 2025اسلام آباد (سچ خبریں) وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ نے کہا ہے
اگست
نیٹو کے کمانڈوز یوکرین میں موجود ہیں: نیویارک ٹائمز
?️ 28 جون 2022سچ خبریں:نیٹو کے رکن ممالک کے ماہر فوجی دستے یوکرین کی مدد
جون
غزہ پر دنیا کی خاموشی کو ترکی نے کیا نام دیا؟
?️ 10 فروری 2024سچ خبریں: ترکی کے وزیر خارجہ نے غزہ جنگ میں رونما ہونے
فروری