اسلام آباد(سچ خبریں) لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ افغانستان کے معاملے میں ہماری رائے یہی تھی کہ سیاسی حل تلاش کریں، فرق یہ ہے کہ پاکستان نقصان سے قبل اس بات کی طرف توجہ دلا رہا تھا جبکہ امریکا اور دیگر ممالک نقصان کے بعد یہ بات کر رہے ہیں ہم نے کابل میں پھنسے لوگوں کی مدد کی، مدد کر رہے ہیں اور ہم اپنا تعاون جاری رکھیں گے۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ اب بھی پاکستان کی پالیسی یہ ہے کہ ہم ایک عام افغان کو چھوڑ نہیں سکتے، ایک افغان کی زندگی کی بھی وہی اہمیت ہے جو افغانستان سے باہر نکلنے والوں کو حاصل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج ہماری سرحدیں کھلی ہیں، ہمارے فضائی راستے بحال ہیں، ہم نے کابل میں پھنسے لوگوں کی مدد کی، مدد کر رہے ہیں اور ہم اپنا تعاون جاری رکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ یہ کہنا کہ کابل میں موجود باقی لوگوں کی ہم پرواہ نہ کریں تو یہ مناسب نہیں ہے، ہمارے لیے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افغان جو کابل چھوڑنا چاہتے ہیں، ہم انہیں سہولت دیں گے اور وہ جو وہاں رہ گئے ہیں وہ بھی اہم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم کابل میں پھنسے غیر ملکیوں کو باہر نکالنے کے لیے پی آئی اے، ہمارے سفارت خانوں، صحافیوں کے لیے وزارت اطلاعات اور کابل میں واقع ہمارے پریس سیکشن نے انخلا میں مدد کی اور پاکستان کا تعاون جاری رہے گا۔
فواد چوہدری نے کہا کہ ہم طالبان سے بات کرنے جارہے ہیں، جس میں تمام طبقات کا خیال رکھا جاسکے گا، اگر ہم یہ کہیں کہ جو افغان پیچھے رہ گئے ہیں انہیں ہم چھوڑ دیں گے تو اس کے نتیجے میں عدم استحکام پیدا ہوگا اور یہ خلا دنیا کے مفاد میں بہتر نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ برطانیہ اور جرمنی کے وزرائے خارجہ پاکستان آئے تھے، وزیر اعظم عمران خان ایک درجن سے زائد وزرائے خارجہ سے مل چکے ہیں جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی درجنوں وزرائے خارجہ سے بات چیت کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری خواہش یہی ہے کہ افغانستان کے حکام کے ساتھ ایک قریبی رابطہ قائم کیا جائے تاکہ افغانستان میں استحکام آسکے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ پاکستان کی ان کوششوں پر ہندوستان کیوں تنقید کر رہا ہے، ان کا افغانستان سے کوئی تعلق نہیں ہے، ان کی سرحد ایک انچ بھی افغانستان سے نہیں ملتی، اگر بھارتی میڈیا دیکھیں تو لگتا ہے افغانستان، بھارت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، آپ اپنا کام کریں آپ یو پی میں الیکشن لڑیں، آپ کا افغانستان سے کوئی تعلق تھا، ہے اور نہ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے حوالے سے ہماری پالیسی واضح ہے، افغانستان میں استحکام ہونا چاہیے اور بھارت کا افغانستان میں کوئی کردار نہیں ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ جب بھی ہندوستان کو موقع دیا گیا تو انہوں نے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا اور اس کی قطعی اجازت نہیں دیں گے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا دفتر خارجہ پہلے ہی بتا چکا ہے کہ ہم شراکت دار حکومت کی حمایت کرتے ہیں، طالبان کی حکومت کا فیصلہ ہم اکیلے نہیں کرنا چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں خطے کے ممالک اور عالمی طاقتیں ساتھ ہوں، افغانستان کے استحکام کے لیے ہم کام کر رہے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ہم نے جو پالیسی اپنائی ہے اس کے بعد افغانستان میں بھارت اربوں ڈالر لگا کر بھی تنہا ہے، بھارتی ٹیکس دینے والوں کو یہ پوچھنا چاہیے کہ وہ پیسہ جو انہوں نے نریندر مودی کو دیا تھا وہ افغانستان میں کیوں ضائع ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں بھارت کی لوک سبھا کے اراکین کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اگر آپ بھارت کے عوام کے صحیح نمائندے ہیں تو اپنی حکومت سے پوچھیں کہ جو اربوں ڈالر بھارتی غریب پر خرچ ہونے تھے وہ افغانستان میں کیوں ضائع کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت سازی افغانستان کے عوام کا کام ہے وہ ہمارا کام نہیں ہے، خطے کا ملک ہونے کی حیثیت سے ایران، ترکی، روس اور خطے کے دیگر ممالک کی طرح ہمارا بھی کردار ہے کہ افغانستان میں استحکام پیدا کریں۔
علاوہ ازیں مقامی سیاست پر بات کرتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اس بات پر زور دیا جاتا رہا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ اپوزیشن سے بات کرے، ہم نے انتخابی اصلاحات پر اپوزیشن سے بات کی، ہم نے انہیں بات کرنے کی دعوت دی، ای وی ایم پر بات کرنے کی دعوت دی، ہم نے کہا کہ کمیٹی میں اپنے نام دیجئیے لیکن تین مہینے ہوگئے اپوزیشن کی طرف سے کوئی نام اسپیکر کو موصول نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے الیکشن کمیشن میں اراکین کے تقرر کے لیے نام دیے تو اس پر بھی اپوزیشن کا کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا، اسی طرح کسی مسئلے میں اپوزیشن کی کوئی رائے نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمٰن ہوں یا مریم بی بی ہوں کسی کو نہیں معلوم کہ ایک دوسرے کی رائے کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جماعتوں کے اندر اختلافات پیدا ہوگئے ہیں، پاکستان مسلم لیگ (ن) میں ٹاس ہوتا ہے کہ ایک ہفتے شہباز شریف قیادت کریں گے اور دوسرے ہفتے مریم پھر معلوم ہوتا ہے کہ شاہد خاقان عباسی اور نواز شریف قیادت کریں گے، ان کے اندر اپنی لڑائی جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم پہلے ہی ٹوٹ چکی ہے اور اس سارے کھیل میں نقصان یہ ہو رہا ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے کوئی سنجیدہ بات نہیں آتی ہے۔