اسلام آباد: (سچ خبریں) پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے متعلقہ وزارتوں سے واضح بیان کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی ڈرون حملے میں پاکستان کی زمین استعمال ہونے کا سوال نہیں ہے جس میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری مارے گئے تھے بلکہ سوال یہ ہے کہ پاکستان کی فضا استعمال کرنے کی اجازت دی گئی یا نہیں؟
سابق وفاقی وزیر، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل بابر افتخار کے حالیہ بیان کا حوالہ دے رہے تھے، جنہوں نے گزشتہ شب ‘جیو نیوز’ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ پاکستان کی سرزمین اس قسم کی چیز کے لیے استعمال ہوئی ہو’۔
فواد چوہدری نے ٹوئٹ میں کہا کہ سوال یہ ہے کہ پاکستان کی فضا استعمال کرنے کی اجازت دی گئی یا نہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ بار بار یہ بیان کہ پاکستان کی سرزمین استعمال نہیں ہوئی، غیر واضح بات ہے، متعلقہ وزارتوں کو واضح بیان جاری کرنا ہو گا۔
گزشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے فواد چوہدری نے مطالبہ کیا تھا کہ یہ بتایا جائے کہ آیا افغانستان میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کو نشانہ بنانے والے ڈرون کے لیے پاکستان کا فضائی راستہ استعمال ہوا ہے یا نہیں۔
فواد چوہدری نے کہا تھا کہ پاکستان کی وزارت خارجہ اور وزارت دفاع واضح طور پر اس معاملے پر اپنی پوزیشن بتائیں کیونکہ پہلے بھی افغانستان کے معاملات میں پاکستان نے بھاری قیمت ادا کی ہے۔
جیو نیوز کےپروگرام میں بات کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ وزارت خارجہ نے اس حوالے سے مکمل طور پر وضاحت کر دی ہے کہ اس میں دوسری کوئی شک والی بات نہیں ہے، ہمیں قیاس آرائیوں اور اس طرح کی چیزوں سے اجتناب کرنا چاہیے، جس کے دل میں جو آتا ہے وہ سوشل میڈیا پر لکھ دیتا ہے، خاص طور پر دشمن ممالک کی طرف سے یہ چیزیں فیڈ کی جاتی ہیں۔
امریکی صدر نے بیان میں کہا تھا کہ امریکا نے اتوار کی صبح افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ڈرون حملہ کیا جس میں ایمن الظواہری مارے گئے تھے، مصر سے تعلق رکھنے والے سرجن کے سر کی قیمت ڈھائی کروڑ ڈالر رکھی گئی تھی کہ انہوں نے 11 ستمبر 2001 کے حملے میں مدد کی تھی جس میں تقریبا 3 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
جیسے ہی اس حملے کی رپورٹ آئیں، متعدد پی ٹی آئی رہنماؤں نے اس حملے میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے سوالات اٹھانا شروع کیے، جس کے بعد آئی ایس پی آر نے وضاحت دی۔
رواں ہفتے کے آغاز میں ‘ایکسپریس نیوز’ کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان نے خبردار کیا تھا کہ اگر امریکا کو پاکستان کی فضا استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تو اس سے افغانستان کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے سوال اٹھایا تھا کہ اگر ہم فضائی راستہ دیتے ہیں، اور اگر امریکا افغانستان میں ڈرون حملہ کرتا ہے تو اس سے ہمارے قبائلی علاقے متاثر ہوں گے، کیا ہم موجودہ بحرانوں کے باوجود کسی اور کی جنگ کا حصہ بننا چاہتے ہیں؟
دوسری جانب، پی ٹی آئی کے رہنما علی حیدر زیدی نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کے بلوچستان میں حالیہ ہیلی کاپٹر کریش میں شہید ہونے والے 6 فوجی افسران کی نماز جنازہ میں شرکت نہ کرنے کے بارے میں سوال پر جنرل افتخارکے ردعمل پر کہا تھا کہ اس سے غلط تاثر گیا۔
گزشتہ رات ڈی جی آئی ایس پی آر سے انٹرویو میں اینکر میں پوچھا تھا کہ یہ سوال صدر کے بارے میں ہے، جو مسلح افواج کے کمانڈر ہیں کہ شہدا کے اہل خانہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ نماز جنازہ میں شریک ہوں۔
آئی ایس پی آر کے ترجمان نے اس معاملے پر بیان دینے سے منع کر دیا تھا، اور کہا تھا کہ بہتر ہے کہ میں اس معاملے پر کوئی بیان نہ دوں۔
علی زیدی نے کہا تھا کہ اس معاملے کو باوقار اور پیشہ ورانہ انداز میں ہینڈل کیا جا سکتا تھا اور کیا جانا چاہیے تھا۔
سابق وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی کہا تھا کہ صدر پاکستان مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ہیں، ان کا دفاع کیا جانا چاہیے تھا۔
دریں اثنا، جمعہ کی رات ڈاکٹر عارف علوی نے ٹوئٹ کیا تھا کہ ان کے جنازے میں شرکت نہ کرنے پر ‘غیر ضروری تنازع’ کھڑا ہو گیا۔
صدر عارف علوی نے کہا تھا کہ اس سے مجھے ان لوگوں کی ٹوئٹس کی مذمت کرنے کا موقع ملتا ہے جو ہماری ثقافت اور نہ ہی ہمارے مذہب سے واقف ہیں۔
قبل ازیں، آئی ایس پی آر نے یہ بھی کہا تھا کہ ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر چند لوگوں نے غلط قسم کا پروپیگنڈا کیا، تضحیک آمیز اور غیر حساس تبصرے شروع کر دیے جو انتہائی تکلیف دہ ہے، بے حسی کا رویہ ناقابل قبول ہے اور ہر سطح پر اس کی مذمت کی جانی چاہیے۔