اسلام آباد:(سچ خبریں) پاکستان تحریک انصاف نے دعویٰ کیا ہے کہ جیل میں بند پارٹی کے سینیٹر اعظم سواتی کو کوئٹہ پولیس نے اسلام آباد سے اپنی تحویل میں لے لیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز ہی اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے متنازع ٹوئٹ کے کیس میں گرفتار سینیٹر اعظم سواتی کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دے دیا تھا۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ کو سینے میں شدید درد اور سانس لینے میں دشواری کے بعد آج صبح پمز (پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز) منتقل کیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے دعویٰ کیا کہ جب ٹیسٹ کی رپورٹس کا انتظار کیا جا رہا تھا تو کوئٹہ پولیس نے انہیں ہسپتال سے ڈسچارج کرا دیا اور ان کی جان کو خطرے میں ڈالتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ لے گئی۔
سابق وزیر اعظم نے پی ٹی آئی سینیٹر کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا افسوس ہے کہ ہمارا نظام انصاف اعظم سواتی کے بنیادی انسانی حقوق کی بار بار خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے تیار نہیں۔
دوسری جانب سے کوئٹہ پولیس نے تاحال اس معاملے پر کوئی رد عمل نہیں دیا، ڈان ڈاٹ کام کی جانب سے بھی کوئٹہ پولیس سے رابطہ کیا گیا لیکن اس کی جانب سے تاحال سینیٹر اعظم سواتی کو منتقل کیے جانے کی تصدیق نہیں کی گئی۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز سینیٹر اعظم سواتی کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا گیا تھا، ایف آئی اے کی جانب سے ریمانڈ ختم ہونے سے قبل ہی اعظم سواتی کو جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجنے کے لیے جمع کی گئی درخواست منظور کرتے ہوئے عدالت نے اعظم سواتی کو 15 دسمبر کو دوبارہ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔
اس سے قبل ایف آئی اے کی درخواست پر جوڈیشل مجسٹریٹ نے اعظم سواتی کو 3 دسمبر تک 4روزہ جسمانی ریمانڈ ان کے حوالے کرنے کی منظوری دی تھی جو 3 دسمبر بروز ہفتہ مکمل ہو رہا تھا۔
خیال رہے کہ 27 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم خان سواتی کو فوجی افسران کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے نے گرفتار کیا تھا، اس سے قبل انہیں 12 اکتوبر کو آرمی چیف کے خلاف ٹوئٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔
اسلام آباد سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر (سی سی آر سی) کے ٹیکنیکل اسسٹنٹ انیس الرحمٰن کی مدعیت میں ریاست کی شکایت پر ایف آئی اے کی جانب سے اعظم سواتی کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی گئی ہے۔
سابق وفاقی وزیر کے خلاف مقدمہ پیکا 2016 کی دفعہ 20 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 131، 500، 501، 505 اور 109 کے تحت درج کیا گیا تھا۔
ایف آئی آر میں تین ٹوئٹر اکاؤنٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی اور مذکورہ اکاؤنٹس نے غلط عزائم اور مذموم مقاصد کے ساتھ ریاستی اداروں، سینئر افسران سمیت جنرل قمر جاوید باجواہ کے خلاف انتہائی جارحانہ انداز میں ٹوئٹر پر مہم کا آغاز کیا۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس طرح نام لے کر اور الزام عائد کرنے والی اشتعال انگیز ٹوئٹس ریاست کو نقصان پہنچانے کے لیے مسلح افواج کے افسران کے درمیان تفریق پیدا کرکے بغاوت کی شرارت ہے۔‘
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اشتعال انگیز ٹوئٹس پر تبصرے کرکے ملزمان نے فوجی افسران کو ان کی ذمہ داریوں اور وفاداری سے بہکانے کی کوشش کی اور اعظم سواتی کی طرف سے یہ بار بار کوشش کی جارہی تھی۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ 26 نومبر کو اعظم سواتی نے ایک ٹوئٹ شیئر کی تھی جس میں لکھا تھا کہ وہ سینئر فوجی افسر کے خلاف ہر فورم پر جائیں گے جبکہ 19 نومبر کو ایک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹوئٹ میں لکھا گیا کہ ملک کی تباہی کے ذمہ دار جرنیل ہیں جس پر اعظم سواتی نے جواب دیا کہ ’شکریہ۔‘
ایف آئی آر کے مطابق 24 نومبر کو ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ کی ٹوئٹ میں لکھا گیا تھا کہ ’تبدیلی کا آغاز اداروں سے کرپٹ جرنیلوں کا گند صاف کرنے سے ہونا چاہیے تھا،‘ جس پر بھی اعظم سواتی نے جواب دیا کہ ’شکریہ‘۔
ایف آئی آر میں مزید لکھا گیا ہے کہ 24 نومبر کو ایک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ نے ایک متنازع ٹوئٹ کیا گیا جس پر اعظم سواتی نے انتہائی جارحانہ انداز میں جواب دیا۔
ایف آئی آر کے مطابق سینیٹر کے خلاف ماضی میں بھی اسی طرح کی شکایات درج ہوئی ہیں، مزید لکھا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے ریاست کے ستونوں کے درمیان بدنیتی پیدا کرنے کی کوشش کر کے عام لوگوں اور مسلح افواج کے اہلکاروں کو اکسانے کی کوشش کی۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے غلط معلومات کی بنیاد پر رازداری کی خلاف وزری کی جو کسی افسر، سپاہی، سیلر یا ایئرمین کو میوٹنی یا اپنے فرائض میں کوتاہی پر اکسانے کی کوشش ہے، مزید کہا گیا ہے کہ ایسے بیانات سے عوام میں خوف پیدا ہونے کا بھی امکان ہے۔