اسلام آباد: (سچ خبریں) یورپی یونین نے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ وہ جنرلائزڈ سسٹم آف پریفرنسز پلس (جی ایس پی پلس) اسٹیٹس کو ہلکا نہ لے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان کے دورے پر موجود انسانی حقوق کے لیے یورپی یونین کے خصوصی نمائندے اولوف اسکوگ نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ شہریوں کے خلاف مقدمات کی پیروی کے لیے فوجی عدالتوں کا استعمال نہ کرے، انہوں نے اظہار رائے کی آزادی کو محدود کرنے کے حالیہ اقدامات کی مخالفت بھی کی۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے اولوف اسکوگ نے کہا کہ انہوں نے یہ پیغامات آرمی چیف، چیف جسٹس اور وفاقی کابینہ کے ارکان سمیت اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے الگ الگ ملاقاتوں میں پہنچائی ہے۔
ان کے دورے کا مقصد حکومت کے ساتھ انسانی حقوق کے اہم معاملات پر بات چیت کرنا اور جون 2025 میں ہونے والے جی ایس پی پلس مانیٹرنگ مشن سے قبل ان سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے منصوبوں کے بارے میں جاننا ہے۔
اولوف اسکوگ نے پاکستان پر زور ہے کہ وہ فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے خلاف مقدمہ نہ چلائے، صرف افراد کو تنقید سے بچانے کے لیے اظہار رائے کی آزادی کو محدود نہ کیا جائے۔
یورپی یونین کے سفیر کی بصیرت جی ایس پی پلس تک مسلسل رسائی حاصل کرنے کے لیے اہم ثابت ہوگی، کیونکہ پاکستان اس اسکیم پر انحصار کرتا ہے، جو یورپی یونین کی منڈیوں تک ترجیحی رسائی فراہم کرتی ہے۔
اس سے قبل یورپی یونین نے 9 مئی کے واقعات میں ان کے کردار پر مقدمہ چلائے جانے پر تشویش کا اظہار کیا تھا، جب پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی گرفتاری کے بعد فسادات پھوٹ پڑے تھے۔
فوجی عدالتوں کی جانب سے سنائی جانے والی سزاؤں کے اعلان کے بعد جاری ہونے والے ایک بیان میں یورپی یونین نے کہا تھا کہ ’ان فیصلوں کو ان ذمہ داریوں سے متصادم سمجھا جاتا ہے جو پاکستان نے شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے (آئی سی سی پی آر) کے تحت کی ہیں۔‘
ڈان سے بات کرتے ہوئے اولوف اسکوگ نے انہی خدشات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں کے استعمال کے بارے میں اپنے خدشات اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے یہ بات چیت کی تھی اور میں یہ بات چیت جاری رکھوں گا، ہمارا خیال ہے کہ شہریوں کے لیے ایک سویلین عدالتی نظام لاگو ہونا چاہیے، انہوں نے واضح کیا کہ جب مظاہروں کے جواب میں فوجی عدالتوں کا وسیع پیمانے پر استعمال ہوا تو ہم نے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے، یہ ہمارا عمومی موقف ہے، انفرادی مقدمات پر تبصرہ نہیں کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اظہار رائے کی آزادی جی ایس پی پلس اسٹیٹس کے لیے ایک اور شرط ہے، یہاں تک کہ صحافیوں اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے ملک کے سائبر کرائم قوانین میں متنازع ترامیم کی منظوری کے خلاف احتجاج کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ اس وقت ہو رہا ہے جب میں پاکستان کا دورہ کر رہا ہوں، میں سرکاری عہدیداروں کے ساتھ اس پر تبادلہ خیال کر رہا ہوں، ہمارا خیال ہے کہ اظہار رائے کی آزادی پر بہت محدود پابندیاں ہونی چاہئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ سیاست دانوں، حکام یا نظام کو تنقید کا نشانہ بننے سے بچانے کے لیے اظہار رائے کی آزادی پر قدغن نہیں لگا سکتے اور یہ وہ بات چیت ہے جو ہم اس وقت پاکستان کے ساتھ کر رہے ہیں کہ حدود کہاں طے کی جائیں۔
اولوف اسکوگ نے کہا کہ جی ایس پی پلس اسکیم کا اگلا دور اس بات پر منحصر ہے کہ پاکستان مختلف بین الاقوامی ذمہ داریوں کی تعمیل کے سلسلے میں کیا کرتا ہے، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جی ایس پی پلس اگلے دور کے لیے موجود ہوگا۔
اب تک یورپی یونین کے عہدیدار نے نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار، آرمی چیف جنرل عاصم منیر، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی، وزرائے قانون و تجارت، دیگر حکام کے علاوہ سول سوسائٹی، میڈیا اور انسانی حقوق کے عہدیداروں سے ملاقاتیں کی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے دورے کا استعمال متعلقہ حکام کو یہ بتانے کے لیے کیا ہے، جو میں نے پاکستان کی سول سوسائٹی سے سنا اور ان کا تعلق ان مسائل سے ہے جن پر ہم نے تبادلہ خیال کیا ہے، آزادی اظہار، مزدوروں کے حقوق، سزائے موت، اور ایسے لوگ جو بغیر کسی مقدمے اور سزا کے جیل میں قید ہیں، یہ ان مسائل کا حصہ ہیں جو ہم نے پاکستان کے ساتھ اٹھائے ہیں۔