اسلام آبا: (سچ خبریں)وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا ہے کہ حکومت تباہ کن سیلاب کے بعد بھارت سے درآمدات کی اجازت دینے کا فیصلہ ملک میں سپلائی کی صورتحال کا جائزہ لینے، اتحادیوں اور اہم اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد کرے گی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری اپنے ایک بیان میں وزیر خزانہ نے کہا کہ ایک سے زیادہ عالمی ایجنسیوں نے حکومت سے رابطہ کیا ہے کہ انہیں زمینی سرحدی راستے کے ذریعے بھارت سے کھانے پینے کی اشیا درآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔
اپنے ٹوئٹ میں مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ حکومت اپنے اتحادیوں، اہم اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت اور اشیا کی سپلائی کی کمی کی صورتحال کی بنیاد پر بھارت سے درآمدات کی اجازت دینے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے گی۔
مفتاح اسمٰعیل کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر نے کہا کہ ملک کو اشیائے خورونوش کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مختصر مدت کے اندر سستے نرخوں پر درآمدات نہ کرنا مجرمانہ فعل ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ جیسا کہ ہم کہتے ہیں کہ ہم سیاست بعد میں کرسکتے ہیں، اسی طرح ہم عالمی سیاست بھی بعد میں کرستکے ہیں۔
دو روز قبل، وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا تھا کہ حکومت لوگوں کی سہولت کے لیے بھارت سے سبزیاں و دیگر اشیائے خورونوش درآمد کرنے پر غور کرسکتی ہے کیونکہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے ملک بھر میں فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔
مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ وہ عام طور پر کسانوں کے پیسے کمانے کے حق میں ہیں اور درآمدات نہیں کھولنا چاہتے لیکن یہ ایک ‘غیر معمولی صورتحال’ ہے اور ضرورت پڑنے پر بھارت کے ساتھ تجارت کھولی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ، یہ معاملہ آج سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کے اجلاس میں بھی اٹھایا گیا۔
سینیٹر پلوشہ خان نے سوال کیا کہ کیا حکومت بھارت سے پیاز اور ٹماٹر درآمد کرنے سے متعلق فیصلے پر غور کر رہی ہے جس پر وزیر تجارت نوید قمر نے جواب دیا کہ فی الحال حکومت نے ایران اور افغانستان سے اشیا درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ بھارت سے پیاز اور ٹماٹر درآمد کرنے کے بارے میں تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
نوید قمر نے قائمی کمیٹی کو بتایا کہ حکومت نجی کمپنیوں کو ایران اور افغانستان سے اشیا کی درآمد میں سہولت فراہم کرے گی۔
وزیر تجارت نے کہا کہ بھارت سے درآمدات کے حوالے سے فیصلہ تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا جب کہ اس سلسلے میں ابھی تک کوئی اجازت نہیں دی گئی۔
وزیر تجارت نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ سیلاب کے باعث فصلیں تباہ ہو گئی ہیں اور آئندہ ماہ سے ملک میں خوراک کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب سے تیار فصلوں کو نقصان پہنچا جبکہ کھیت زیر آب آنے کی وجہ سے نئی فصلیں بھی کاشت نہیں جا سکتیں، انہوں نے نشاندہی کی کہ سبزیوں کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔
واضح رہے کہ 9 اگست 2019 کو وفاقی کابینہ نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے یکطرفہ اقدام کے بعد پڑوسی ملک سے دوطرفہ تجارت کو معطل کر دیا تھا، بھارتی حکومت نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کردیا تھا۔
21 فروری 2022 کو ڈان کی رپورٹ کے مطابق سابق مشیر برائے تجارت، ٹیکسٹائل، صنعت و پیداوار اور سرمایہ کاری عبدالرزاق داؤد نے کہا تھا کہ بھارت کے ساتھ تجارت وقت کی اہم ضرورت ہے اور دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہے۔
مارچ 2021 میں اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے اعلان کیا تھا کہ وہ نجی سیکٹر کو اجازت دیں کہ بھارت سے 5 لاکھ ٹن چینی اور کپاس واہگہ بارڈر کے ذریعے درآمد کریں، تاہم موجودہ اتحادی حکومت اور اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں پی ایم ایل (ن) اور پی پی پی کی کی جانب سے اس فیصلے پر شدید تنقید کی گئی تھی جس کے بعد چند دنوں میں یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا تھا۔
11 مئی 2022 کو رواں برس کومت تبدیل ہونے کے بعد وفاقی وزارت تجارت نے کہا تھا کہ ٹریڈ منسٹر کی تعیناتی کو بھارت کے ساتھ تجارت کی بحالی سے نہ جوڑا جائے کیونکہ تجارتی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔
وفاقی وزارت تجارت کی جانب سے جاری بیان میں تجارت معطل ہونے کے باوجود بھارت میں ٹریڈ منسٹر تعینات کرنے کے فیصلے کی سرکاری سطح پر تصدیق کی گئی تھی۔
یہ ردعمل اس وقت سامنے آیا تھا جب سوشل میڈیا پر بڑے پیانے پر قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت بھارت سے تجارت بحال کرنے پر غور کررہی ہے۔
16 جون کو وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے دیگر ممالک خصوصاً بھارت اور امریکہ کے ساتھ تجارت اور روابط کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ماضی کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان عالمی سطح پر تنہائی کا شکار تھا۔
اپنی تقریر میں بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات پر زیادہ زور دیتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اقتصادی سفارت کاری اور دونوں ممالک کے درمیان رابطوں پر توجہ دی جائے۔
وزیر خارجہ کی دلیل یہ تھی کہ جنگ اور تنازعات کی ایک طویل تاریخ اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کے اقدامات اور اس کے مسلم مخالف ایجنڈے کے باوجود رابطے منقطع رہنا پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔
17 جون 2022 کو دفتر خارجہ نے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے بھارت کے ساتھ تعلقات سے متعلق دیے گئے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ مشرقی پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے جب کہ موجودہ پالیسی پر قومی اتفاق رائے ہے۔