اسلام آباد:(سچ خبریں)اسلام آباد ہائیکورٹ نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی ) کو قومی احتساب بیورو (نیب) لاہور کے ڈائریکٹر جنرل شہزاد سلیم کے خلاف کارروائی سے روک دیا ہے۔
ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے خلاف درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں قائم مقام چیف اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے سماعت کی۔
واضح رہے کہ طیبہ گل کی جانب سے ہراسگی کے سنگین الزامات پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں طلبی کے خلاف ڈائریکٹر جنرل نیب لاہور شہزاد سلیم نے گزشتہ ہفتے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) میں طیبہ گل نے حلف اٹھا کر انکشاف کیا تھا کہ احتساب بیورو کے اہلکاروں نے ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا اور یہاں تک کہ ان کی تلاشی بھی لی۔
طیبہ گل کے الزامات پر چیئرمین پی اے سی نور عالم خان نے لاپتا افراد کمیشن کے موجودہ چیئرمین اور سابق سربراہ نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اور دیگر افسران کو کمیٹی کے سامنے طلب کیا تھا۔
سماعت کے دوران نیب کی جانب سے اسپیشل پروسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ پیش ہوئے جب کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد محمود کیانی عدالت کے سامنے حاضر یوئے۔
عدالت کے اس سوال کے جواب میں کہ پارلیمانی معاملے میں عدالت کیسے مداخلت کرے، نیب نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمان کو کُلی طور پر استثنیٰ حاصل نہیں، اب پارلیمانی استثنیٰ کی حد پر سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے استدلال کیا کہ یہاں معاملہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی بے ضابطگی کا ہے۔
قائمقام چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بھی پارلیمان کے اندر ہی آتی ہے جس پر اسپیشل پروسیکیوٹر نیب نے کہا کہ استثنیٰ صرف پارلیمان کی کارروائی کو حاصل ہے۔
عدالت نے ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم کی درخواست پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو نوٹس جاری کر دیا جب کہ ڈپٹی اٹارنی جنرل کی پی اے سی کو نوٹس نہ کرنے کی استدعا مسترد کی گئی، نوٹس میں جواب طلب کیا گیا ہے کہ پی ای سی کے پاس فنڈز کے علاوہ کسی معاملے پر کسی عہدیدار کی طلبی کا اختیار ہے یا نہیں۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا تھا کہ پی اے سی کو نوٹس کا مطلب چئیرمین پی اے سی کو نوٹس ہے جس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے تھے کہ آپ پڑھے لکھے لوگوں جیسی باتیں کریں، جب چئیرمین سینیٹ کو نوٹس جاری ہو سکتا ہے تو چئیرمین پی اے سی کو کیوں نوٹس جاری نہیں کیا جاسکتا ؟
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ چئیرمین سینیٹ خود میرے سامنے درخواست دائر کر چکے، کیس لڑ چکے ہیں۔
دوران سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو شہزاد سلیم کے خلاف تادیبی کارروائی سے روک دیا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ پی اے سی کی کارروائی پر اسٹے آرڈر نہیں دے رہے، آپ وارنٹس وغیرہ جاری کر دیتے ہیں ایسے اقدامات سے روک رہے ہیں۔
قائم مقام چیئرمین نیب کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اختیارات کے خلاف درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی، قائم مقام چیف اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے ساتھ سماعت کی۔
قائم مقام چیئرمین نیب کی درخواست پر رجسٹرار آفس نے اعتراضات عائد کیے تھے۔
دوران سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ نے رجسٹرار ہائی کورٹ کے کچھ اعتراضات عدالت نے ختم کر دیے جب کہ کچھ اعتراضات برقرار رکھے گئے، عدالت نے نیب کو 2 روز میں رجسٹرار آفس کے دیگر اعتراضات ختم کرنے کی ہدایت کی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے طیبہ گل کے کیس میں فریق بننے کی درخواست پر بھی سماعت ہوئی۔
دوران سماعت عدالت نے طیبہ گل کی وکیل سے استفسار کہ آپ بتائیں کہ کس طرح سے اس معاملے میں متاثرہ فریق ہیں، کیوں کیس میں فریق بننا چاہتے ہیں؟ قائم مقام چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ پی اے سی کے سامنے شکایت کنندہ ہیں تو یہاں پارٹی کیسے بن سکتی ہیں۔
عدالت نے طیبہ گل کی نیب کے خلاف کیس میں فریق بننے کی درخواست پر نوٹس جاری کردئیے، طیبہ گل کے فریق بننے کی درخواست پر آئندہ سماعت پر فریقین سے دلائل طلب کرتے ہوئے عدالت نے کیس کی مزید سماعت ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ پی اے سی کے سامنے گواہی دیتے ہوئے طیبہ گل نے الزام لگایا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان نے سیٹیزن پورٹل پر شکایت درج کرانے کے بعد انہیں ملاقات کے لیے بلایا تھا۔
شکایت میں خاتون نے نیب کے اس وقت کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا اور خفیہ طور پر ریکارڈ شدہ فوٹیج کے اسکرین شاٹس بھی منسلک کیے تھے۔
انہوں نے پی اے سی کو بتایا تھا کہ اعظم خان نے ویڈیو طلب کی اور انہیں یقین دلایا کہ وہ جاوید اقبال کے خلاف کارروائی کریں گے، لیکن بعد میں یہ ویڈیو ایک ٹیلی ویژن چینل پر نشر کردی گئی۔
خیال رہے کہ پی اے سی کے چیئرمین نور عالم خان پہلے ہی لاپتا افراد کمیشن کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اور دیگر افسران کی معطلی کا مطالبہ کر چکے ہیں۔