اسلام آباد: (سچ خبریں) بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی 190 ملین پاؤنڈ کیس اور توشہ خانہ ریفرنس میں جیل ٹرائل کے خلاف درخواستیں قابل سماعت قرار دے دی گئی ہیں۔
میڈیا کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے بانی پی ٹی آئی کی نیب کیسز میں جیل ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر فریقین کو پیر کے لیے نوٹسز بھی جاری کردیے ہیں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ارباب محمد طاہر نے سیکریٹری داخلہ کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا ہے۔
اس موقع پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ پیر کو کیس دستیاب بینچ کے سامنے مقرر کیا جائے۔
یاد رہے کہ آج ہی اسلام آباد ہائی کورٹ میں توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف سابق وزیر اعظم اور بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا تھا۔
توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف عمران خان کی اپیل پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ارباب محمد طاہر نے سماعت کی۔
عمران خان اور ان کی اہلیہ کے وکیل سردار لطیف کھوسہ عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر سردار لطیف کھوسہ روسٹرم پر آئے اور دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ یہ 2 نوٹیفکیشن ہیں جن کو ہم نے چینلج کیا ہے، وزارت قانون و انصاف نے نگران حکومت کی منظوری سے جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ توشہ خانہ کیس میں بانی پی ٹی آئی کے خلاف جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا، جیل ٹرائلز سے متعلق اس عدالت کا فیصلہ بھی موجود ہے، توشہ خانہ ریفرنس 20 دسمبر 2023 کو نیب نے احتساب عدالت میں دائر کردیا، ریفرنس دائر ہونے سے ایک ماہ پہلے جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ توشہ خانہ ریفرنس میں سینٹرل جیل اڈیالہ میں روزانہ کی بنیاد پر جیل ٹرائل چل رہا ہے، کورٹ رولز تھری میں واضح ہے کہ ٹرائل یا انکوائری اوپن کورٹ یا اوپن پبلک میں ہوگی۔
لطیف کھوسہ نے عدالت میں توشہ خانہ کیس پر جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن کا پڑھ کر سنایا، انہوں نے مختلف عدالتی فیصلوں کے بھی حوالے دیے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ 21 نومبر 2023 کا نوٹیفکیشن ہے تو آپ اتنے دیر سے کیوں آئے؟ آپ کو اس نوٹیفکیشن سے متعلق کب پتا چلا ؟
لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ ہمیں تب معلوم ہوا جب بانی پی ٹی آئی کو ریفرنس میں سمن جاری کیا گیا، 23 دسمبر سے عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس روزانہ کی بنیاد پر چل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق متعلقہ عدالت کے جج نے جیل ٹرائل کا پراسیس شروع کرنا ہوتا ہے، یہ عدالت پراسس پر عمل کرنے سے متعلق آرڈر جاری کر چکی ہے، عجیب ہے کہ یہاں ریفرنس دائر ہونے سے ہی ایک ماہ پہلے نوٹیفکیشن ہو گیا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ آپ نے یہ نوٹیفکیشنز اتنی تاخیر سے کیوں چیلنج کیے؟ یہ نومبر کا نوٹیفکیشن ہے اور آپ نے جنوری میں درخواست دائر کی، ہم نے تو اس کا پراسس ہی دیکھنا ہے نا ٹھیک ہوا ہے یا نہیں، ہم نے یہ نہیں دیکھنا ٹرائل ادھر کریں یا جیل میں کریں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ تو کیا ریفرنس دائر کرنے سے پہلے انہوں نے جیل ٹرائل شروع کیا؟ لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ بالکل انہوں نے ریفرنس دائر کرنے سے پہلے ہی جیل ٹرائل شروع کیا، نوٹیفکیشن بھی بعد میں آیا، وفاقی حکومت کو کیسے پتا تھا کہ ریفرنس دائر ہوگا؟
انہوں نے مزید کہا کہ جج کی تعیناتی بھی قانون کے مطابق نہیں، اس کیس میں جج کی جانب سے کوئی تجویز بھی نہیں ہے، جج نے بھی نہیں کہا کہ سیکیورٹی کی وجوہات پر جیل ٹرائل کریں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ مختصر فیصلہ تو ہمارا موجود تھا، جوڈیشل آرڈر تھا، وہ دیکھ سکتے تھے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ 2021 کے نیب قانون کے مطابق صدر پاکستان جج احتساب عدالت کو تعینات کرتا ہے، جج احتساب عدالت اسلام آباد کی تعیناتی نیب پرانے قوانین کے تحت ہوئی، نیب قوانین میں 2022 میں ترمیم کردی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پرانے نیب قانون میں صدر مملکت ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی سفارش پر ڈسٹرکٹ سیشن جج کو احتساب عدالت کا جج تعینات کرے گا، نیب قانون میں ترمیم کے بعد ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار تبدیل کردیا گیا، پرانے قانون میں صدر مملکت جبکہ نئے قانون میں وفاقی حکومت کو اختیارات دیے گئے، نیب ترمیمی ایکٹ میں وفاقی کابینہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت سے جج کی تعیناتی کرسکے گی۔
لطیف کھوسہ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ صبح سے شام تک ہمیں جیل میں بٹھاتے ہیں، اکثر مجھے واپس آنا پڑتا ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا اسلام میں اس وقت صرف ایک احتساب عدالت فنکشنل ہے؟
جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیے کہ 3 میں سے ایک عدالت چل رہی جبکہ وہ بھی نہیں چل رہی کیونکہ وہ بھی اڈیالہ جیل ہوتی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بہت سارے ریفرنسز احتساب عدالتوں میں واپس ہوئے۔
انہوں نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ میں آپ کو بتاؤں کہ یہ عدالتیں کیوں خالی ہیں؟ یہ سب آپ کے لوگوں کی وجہ سے ہیں، جس چیف جسٹس گلزار کا آپ نے نام لیا انہوں نے یہاں 3 احتساب عدالتوں کی منظوری دی تھی، ہماری سفارشات پر وزارت قانون و انصاف بیٹھ جاتی ہیں، آپ کی حکومت تھی انہوں نے عدالتوں کی منظوری ہی نہیں دی تھی۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں یہاں کالے کورٹ میں کھڑا ہوں، اُن کی اِس بات ہر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ نیب قانون میں روزانہ کی بنیاد پر سماعتوں کا لکھا ہے۔ْ
اس پر شعیب شاہین نے کہا کہ نہیں نیب نے صرف ہمارے کیسسز میں روزانہ کی سماعت کا لکھا ہے، باقیوں کا نہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ اِس کیس میں کل کتنے گواہوں کی لسٹ دی گئی ہیں؟
لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ اِس کیس میں کُل 20 گواہان ہیں جس میں 3 کا بیان قلمبند ہوچکا، احتساب عدالت میں صرف عمران خان کے خلاف کیس تو نہیں باقیوں کے خلاف بھی ہیں، نواز شریف سمیت دیگر لوگوں کے خلاف نیب کیسسز ہیں مگر وہاں سماعت ہی نہیں ہوتی۔
شعیب شاہین نے کہا کہ ہم نے کل بتایا کہ درخواست آپ کے پاس لگی ہے مگر جج صاحب نے پھر بھی سماعت کرلی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ بہتر نہیں ہوگا کہ ان کو نوٹسسز جاری کریں۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں نے جج صاحب کو کہاں بھی تھا کہ آپ کی تعیناتی ٹھیک نہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ جج تعیناتی کے لیے آپ دوسری درخواست لے آئیں، فی الحال جیل ٹرائل تک ہی رہے، کیا آپ نے جج کی تعیناتی کے خلاف درخواست دی تھی ؟
لطیف کھوسہ نے کہا کہ جی بالکل ہم نے جج احتساب عدالت کے سامنے ان کی تعیناتی کے حوالے سے درخواست دی تھی، جو مسترد ہوئی، توشہ خانہ میں صرف عمران خان نے نہیں ساروں نے گفٹس لے لیے ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ یہ تمام تحائف ریاست کے ہیں اور یہ ریاست کو واپس ہونے چاہئیں، یہ گفٹ ریاست کے ہوتے ہیں، اُسی کے پاس ہی رہنے چاہئیں، آپ یہ اقدام اٹھائیں اور ریاست کے تحائف واپس کریں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا اس کیس میں سیکریٹری کابینہ ملزم ہے؟ لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ سیکریٹری کابینہ کا اس پورے ریفرنس میں کہیں بھی نام نہیں ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ توشہ خانہ حکومت کی تجوری ہے اور سیکریٹری کابینہ اس کا رکھوالا ہے، سیکریٹری کابینہ نے سب کے لیے دروازہ کھلا چھوڑ دیا ہے، اب وہ اس کیس میں ہے ہی نہیں، یہ کیا سیل لگی ہوئی ہے جو 50 فیصد یا 20 فیصد ڈسکاؤنٹ پر چیزیں لے رہے ہیں۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ ہم نے آپ کا کیس سن لیا، اس سے متعلق ہم فیصلہ کرتے ہیں۔
دریں اثنا عدالت نے نیب کیسز میں جیل ٹرائل کے خلاف عمران خان کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز 17 جنوری کو ہونے والی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف عمران خان کی اپیلوں پر ڈویژن بینچ بنانے کے لیے فائل چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو بھجوا دی تھی۔
16 جنوری کو عمران خان نےتوشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ کیس میں جیل ٹرائل اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے جیل ٹرائل نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔
عمران خان نے جیل ٹرائل کے نوٹیفکیشن کے خلاف درخواست دائر کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ القادر ٹرسٹ کیس میں 14 نومبر کو جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا، اس کیس میں 28 نومبر کو جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری ہوا، جیل ٹرائل کے یہ نوٹیفکیشن غیر قانونی، بدنیتی پر مبنی ہیں۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ جیل ٹرائل کے نوٹیفکیشنز کو کالعدم قرار دیا جائے، اس درخواست کے زیر التوا رہنے تک ٹرائل کورٹ کی کارروائی کو روکا جائے۔
بانی پی ٹی آئی کی جانب سے دائر درخواست میں چیئرمین نیب اور دیگر کو فریق بنایا گیا۔