اسلام آباد: (سچ خبریں) اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے بھانجے اور فوکل پرسن حسان نیازی کا مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
کارسرکار میں مداخلت کے کیس میں 2 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر حسان نیازی کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں ڈیوٹی مجسٹریٹ مرید عباس کی عدالت پیش کیا گیا، ان کے وکیل فیصل چوہدری بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت پولیس کی جانب سے مزید 5 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی، تفتیشی افسر نے حسان نیازی کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ’ساتھی ملزم کا معلوم ہو گیا ہے لیکن پستول اور گاڑی برآمد کرنے ہیں‘۔
حسان نیازی کے وکیل فیصل چوہدری نے دلائل کے آغاز میں ایف آئی آر کاپی پڑھ کر سنائی، انہوں نے کہا کہ 72 گھنٹے سے زیادہ ہو گئے ہیں یہ ان کے پاس ہیں لیکن ابھی بھی پستول برآمد کرنا ہے، تفتیشی افسر نے بتایا کہ دوسرے شخص کی شناخت کر لی ہے، ایک چیز جب ان کے قبضے میں نہیں ہے تو بندے کو قبضے میں رکھنا کیسے ممکن ہے، 72 گھنٹوں میں پولیس یہ نہیں معلوم کر سکی کہ گاڑی کون سی تھی اور کس کے نام پر تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملزم پیشے سے وکیل ہیں اور اس دن تین کیسز میں ضمانت لی، میں ان کے گزرنے سے ایک منٹ پہلے گزرا ہوں اور وہاں کوئی بیریئر نہیں تھا، صرف سیاسی بنیادوں پر کیسز کیے جارہے ہیں، حسان نیازی کا گناہ یہ ہے کہ عمران خان کے بھانجے ہیں، مقدمے میں وقوعہ کا وقت جھوٹا ہے، ایک وکیل کو تین دن زہر حراست رکھ کر یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ ہم گرفتار کریں گے اور ماریں گے۔
فیصل چوہدری نے صدیق جان کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کا پرچہ صدیق جان پر تھا، ایک دن کا ریمانڈ پولیس کو دیا، کچھ نہ نکلا تو عدالت نے ڈسچارج کر دیا، پولیس کے ہاتھوں ایک وکیل کی تذلیل کی جارہی ہے، یہ وکلا کا کاز ہے اس کو بہتر اینگل سے دیکھا جائے۔
فیصل چوہدری کے دلائل مکمل ہونے کے بعد حسان نیازی کے دوسرے وکیل علی بخاری نے دلائل شروع کرتے ہوئے حسان نیازی کو کیس سے ڈسچارج کرنے کی استدعا کر دی۔
انہوں نے کہا کہ پولیس رپورٹ میں لکھا ہے کہ 11 بجے اٹھایا گیا اور 4 بجے شام کو گرفتاری ڈالی گئی، میں یہ کہتا ہوں کہ گرفتاری ہی غیر قانونی ہے، حسان نیازی کے بعد بہت سے لوگ اندر بیٹھ گئے کہ گرفتار کیا جاسکتا ہے۔
علی بخاری کے دلائل مکمل ہونے کے بعد صدر اسلام آباد بار قیصر امام نے دلائل کا آغاز کیا، انہوں نے کہا کہ کبھی ایسا نہیں ہوا جو اب ہو رہا ہے، جو وکلا اپنے وکیل کی نمائندگی کر رہے ہیں اب ان پر مقدمے ہو رہے ہیں، مارشل دیکھا اور برے حالات دیکھے لیکن ایسا نہیں دیکھا، جب مقدمہ درج ہو جائے تو پہلے ضمانت قبل از گرفتاری آتی ہے۔
قیصر امام نے مختلف کیسز کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ پولیس جب ریمانڈ کی استدعا کرتی ہے ہم اس سٹیج سے بھی گزر چکے ہیں، دو بڑے وکلا موقع پر موجود تھے وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایسا ہوا ہی نہیں، ایف آئی آر میں 2 دفعات کے علاوہ تمام قابل ضمانت ہیں، یہ سمجھ نہیں آئی کہ دوسرا بند پستول لہراتے ہوئے بھاگ گیا یہ کیسی دوستی ہے، پستول پاس موجود ہے اور یہ بندہ مارنے کے لیے گاڑی اوپر چڑھا رہا ہے، بار کا صدر ہونے کے ناطے میں شرمندہ ہوں۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد حسان نیازی کے مزید 5 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
بعد ازاں عدالت نے محفوظ فیصلے سناتے ہوئے پولیس کی جانب سے حسان نیازی کے مزید 5 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کردی اور انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد انہیں 6 اپریل کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی رہنما حسان خان نیازی کو 20 مارچ کو گرفتار کرلیا گیا تھا، اُن کے خلاف کار سرکار میں مداخلت اور اسلحہ دکھانے کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا، مقدمہ تھانہ رمنا میں اے ایس آئی خوبان شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق انہوں گاڑی کو روکنے کی کوشش کی لیکن ڈرائیور نے پولیس اہلکاروں کے اوپر گاڑی چھڑائی، حسان نیازی نے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی، حسان نیازی کے ساتھ دوسرے شخص نے اسلحہ نکالا، دوسرا شخص گاڑی نکال کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا، دوران مزاحمت حسان نیازی کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔
بعد ازاں 21 مارچ کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے پولیس کی درخواست پر حسان خان نیازی کے 2 روزہ جسمانی ریمانڈ کی منظوری دے دی تھی۔