مظفر آباد: (سچ خبریں) آزاد جموں و کشمیر میں شہری تنظیموں کے اتحاد جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی (جے کے جے اے اے سی) نے اعلان کیا ہے کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات ناکام ہونے کے بعد وہ ہفتہ کو علاقے کے داخلی راستوں کی طرف لانگ مارچ کریں گے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق متنازع صدارتی آرڈیننس کی منسوخی کے لیے شہری تنظیموں کے اتحاد کی کال پر مکمل شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال نے جمعہ کو آزاد جموں و کشمیر کو مفلوج کر دیا۔
آزاد کشمیر حکومت کی جانب سے رات گئے مظفر آباد میں جے کے جے اے اے سی کی کور کمیٹی کے ساتھ ابتدائی مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی جس پر مظاہرین نے پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
جمعہ کو پورے خطے میں جزوی اور پرامن ہڑتال کی گئی، اس دوران سڑکوں پر پرائیوٹ ٹرانسپورٹ بھی نہ ہونے کے برابر تھی تاہم خطے کے اہم اور مرکزی راستوں پر ٹریفک مکمل معطل رہی اور شہری علاقوں میں کاروبار بھی مکمل بند رہا۔
جمعہ کی نماز کے بعد جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنما شوکت نواز میر نے مظفرآباد کے اپر اڈہ کے لال چوک پر سینکڑوں افراد سے خطاب میں مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں خطے کے داخلی راستوں تک لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا۔
انہوں نے کہا کہ مظفر آباد ڈویژن سے مارچ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کی سرحد سے متصل برار کوٹ تک جائے گا جب کہ پونچھ ڈویژن میں مارچ کوہالہ (باغ ایبٹ آباد سرحد)، ٹین ڈھل کوٹ اور آزاد پتن کی طرف جائیں گے، جو پونچھ اور سدھنوتی اضلاع کو راولپنڈی سے جوڑتے ہیں۔
شوکت میر نے تاجروں کو ہفتہ کی صبح 11 بجے تک اپنی دکانیں کھولنے کی اجازت دی، جس سے رہائشیوں کو لاک ڈاؤن شروع ہونے سے پہلے ضروری خریداری کرنے کا موقع ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت حراست میں لیے گئے کارکنوں کو رہا نہ کرنے اور ’کالا قانون‘ منسوخ نہ کرنے پر بضد ہے، انہوں نے الزام عائد کیا کہ یہ اقدامات خطے میں بدامنی پیدا کرنے کے ایجنڈے کا حصہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس غلط فہمی میں ہے کہ عوام تھک چکے ہیں اور اب جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی حمایت نہیں کریں گے، تاہم انہیں نہیں پتا کہ اس پلیٹ فارم نے عوام کو ان کے حقوق کے بارے میں بیداری پیدا کرکے اور انہیں صحیح اور غلط میں فرق کرنے کے قابل بنا کر بااختیار بنایا ہے۔
آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اطلاعات پیر مظہر سعید نے جے کے جے اے اے سی کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے ان کے مطالبات کو غیر لچکدار قرار دیا۔
انہوں نے ڈان کو بتایا کہ حکومت نے زیر حراست افراد کی رہائی کے طریقہ کار کی تجویز پیش کی ہے اور ایک وسیع البنیاد مشاورتی کمیٹی کے ذریعے متنازع صدارتی آرڈیننس پر خدشات کو دور کرنے کی پیش کش کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات پر رضامند ہونا ایک بات ہے لیکن اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے سے انکار کرنا دوسری بات ہے۔
بعد ازاں شام کو وزیر اطلاعات نے کابینہ کے دو ساتھیوں کے ہمراہ پریس کانفرنس کی اور جے کے جے اے اے سی کو سنجیدہ مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ مذاکرات ناکام نہیں ہوئے تاہم پہلا سیشن بے نتیجہ ختم ہوا۔
احتجاج کے جمہوری حق کو تسلیم کرتے ہوئے انہوں نے جے کے جے اے اے سی پر زور دیا کہ وہ ذمہ داری سے کام لیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ دھرنا دے سکتے ہیں، لیکن راستوں کو بند کرنے سے گریز کریں، کیونکہ اس سے مریض، طلبہ، مسافر اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے شہری متاثر ہوں گے۔
یاد رہے کہ آزاد جموں و کشمیر میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کسی بھی احتجاج اور جلسے سے ایک ہفتے قبل ڈپٹی کمشنر سے اجازت لینا ضروری قرار دیا گیا تھا، اس کے علاوہ کسی غیر رجسٹرڈ جماعت یا تنظیم کے احتجاج پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
اس آرڈیننس کو مرکزی بار ایسوسی ایشن مظفر آباد اور آزاد کشمیر بار کونسل کے 3 ارکان نے آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
ہائی کورٹ نے ان درخواستوں کو مسترد کردیا تھا جس کے بعد درخواست گزاروں نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ آف آزاد کشمیر میں درخواست دائر کردی تھی۔
تاہم سپریم کورٹ آف آزاد جموں و کشمیر نے پرامن احتجاج اور امن عامہ سے متعلق آرڈیننس 2024 کا نفاذ معطل کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف 2 اپیلیں منظور کرلی تھیں، تاہم عوامی ایکشن کمیٹی نے آرڈیننس کی منسوخی تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔