سچ خبریں: کیمبرج یونیورسٹی کے محققین نے ایک مقالے میں خبردار کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے متنازع ٹولز جلد ہی ایک نئے تجارتی محاذ میں صارفین کی فیصلہ سازی پر ’خفیہ طور پر اثر انداز‘ ہوسکتے ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ’ارادے کے ڈیجیٹل سگنلز‘ کے لیے ابھرنے والا ممکنہ ’منافع بخش لیکن پریشان کن‘ بازار مستقبل قریب میں فلموں کے ٹکٹ خریدنے سے لے کر سیاسی امیدواروں کو ووٹ دینے تک ہر چیز پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔
تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے کہ چیٹ بوٹس، ڈیجیٹل ٹیوٹرز اور دیگر نام نہاد ’اینتھروپومورفک‘ اے آئی ایجنٹوں کے ساتھ ہماری بڑھتی ہوئی واقفیت حوصلہ افزا ٹیکنالوجیز کی اس نئی صف کو قابل بنانے میں مدد کر رہی ہے۔
مقالے کے دو شریک مصنفین کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت ہماری آن لائن عادات کے علم کو صارف کو جاننے اور اس کی خواہشات کا اندازہ لگانے اور ’اعتماد اور تفہیم کی نئی سطحوں‘ کی تعمیر کرنے کی بڑھتی ہوئی صلاحیت کے ساتھ یکجا کرے گی۔
لیورہلم سینٹر فار دی فیوچر آف انٹیلی جنس وزیٹنگ اسکالر اور شریک مصنف ڈاکٹر یعقوب چوہدری نے کہا کہ زندگی کے ہر شعبے میں مصنوعی ذہانت کے معاونین کی تعیناتی کے لیے زبردست وسائل خرچ کیے جا رہے ہیں، جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ نام نہاد معاونین کس کے مفادات اور مقاصد کی خدمت کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں؟
ہارورڈ ڈیٹا سائنس ریویو میں شائع ہونے والے مقالے میں کہا گیا ہے کہ اس پر قابو نہیں پایا جاسکتا، جس سے ’صنعتی پیمانے پر سماجی ہیرا پھیری‘ ہو سکتی ہے، یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کس طرح یہ ابھرتا ہوا شعبہ – جسے ’ارادے کی معیشت‘ کہا جاتا ہے، صارفین کی توجہ اور مواصلاتی انداز کو پروفائل کرے گا اور انہیں ان کے طرز عمل اور انتخاب کے نمونوں سے منسلک کرے گا۔
اس تحقیق کے شریک مصنف یعقوب چوہدری نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کے ٹولز پہلے ہی تیار کیے جا رہے ہیں، جو انسانی منصوبوں اور مقاصد کو حاصل کرنے، تخمینہ لگانے، جمع کرنے، ریکارڈ کرنے، سمجھنے، پیشگوئی کرنے اور بالآخر ان میں ردوبدل اور تبدیلی کرنے کے لیے ہیں۔
ایک اور شریک مصنف ڈاکٹر جونی پین اور یعقوب چوہدری لکھتے ہیں کہ ’ارادے کی معیشت‘ توجہ کی معیشت ہوگی، جو وقت پر تیار کی جائے گی، پروفائلنگ کی جائے گی کہ کس طرح صارفین کی توجہ اور مواصلاتی انداز طرز عمل کے نمونوں اور ہمارے انتخاب سے منسلک ہوتے ہیں۔
یونیورسٹی آف کیمبرج کے مطابق یعقوب چوہدری نے کہا کہ اگرچہ کچھ ارادے عارضی ہوتے ہیں، لیکن جو ارادے برقرا رہتے ہیں، ان کی درجہ بندی اور ہدف بنانا اشتہار دینے والوں کے لیے انتہائی منافع بخش ہوگا۔
تحقیق کے مطابق نئی مصنوعی ذہانت نام نہاد لارج لینگویج ماڈلز یا ایل ایل ایمز پر انحصار کرے گی، تاکہ صارفین کی صلاحیت، سیاست، الفاظ، عمر، جنس، آن لائن تاریخ اور یہاں تک کہ چاپلوسی اور بے وقوفی کی ترجیحات کو ہدف بنایا جا سکے۔
یہ دیگر ابھرتی ہوئی مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے ساتھ منسلک ہوگا، جو کسی مخصوص مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بولی لگاتا ہے، جیسے سینما کے ٹکٹ فروخت کرنا، یا بات چیت کو مخصوص پلیٹ فارمز، اشتہار دہندگان، کاروباری اداروں اور یہاں تک کہ سیاسی تنظیموں کی طرف لے جانا۔
جونی پین نے کہا کہ دہائیوں سے ’صارفین کی توجہ‘ انٹرنیٹ کی ’کرنسی‘ رہی ہے، فیس بک اور انسٹاگرام جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ اپنی توجہ کا اشتراک کرنے سے آن لائن معیشت میں اضافہ ہوا۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ جب تک ریگولیٹ نہیں کیا جاتا، ’ارادے کی معیشت‘ آپ کے محرکات کو نئی کرنسی کے طور پر دیکھے گی، یہ ان لوگوں کے لیے سونے کی مانند ہوگی، جو انسانی ارادوں کو نشانہ بناتے ہیں، چلاتے ہیں اور فروخت کرتے ہیں۔’