سچ خبریں: گزشتہ ماہ زمین پر پہنچنے والے خلائی جہاز میں موجود ’بینو‘ نامی سیارچے سے جمع کرنے والی دھول اور ذرات کے نمونوں کی تصاویر جاری کردی گئی ہیں۔
اوسیرس ریکس خلائی جہاز سنہ 2016 میں زمین سے بینو کی طرف گیا تھا۔
2016 میں زمین سے لانچ ہونے کے بعد اس خلائی جہاز نے بینو کے گرد 2 سال تک چکر لگائے اور اس دوران اوسیرس ریکس نے سائنسدانوں کو ’خلائی پہاڑ‘ یعنی بینو کی تصاویر اور ڈیٹا بھیجا تاکہ سمجھا جاسکے کہ بینو سے سورج اور سیاروں کے بننے کے عمل کے کئی اشارے مل سکتے ہیں۔
اور پھر 2018 میں اس خلائی جہاز نے بینو کی سطح کو چھوا، جیسے ہی خلائی جہاز بینو کی سطح پر اترا تو اس پر نائٹروجن گیس کا دباؤ ڈال کر فضا میں اترنے والی دھول اور پتھر کے نمونے جمع کرلیے، نمونے جمع کرنے کے بعد اس نے دوربارہ اڑان بھری اور پھر تین سال بعد یہ زمین پر لینڈ کرگیا ہے۔
بینو نامی سیارچے کی چوڑائی صرف 550 میٹر ہے اور یہ سیارچے نظام شمسی بننے کے ابتدائی دور کا ہے۔
یہ خلائی جہاز 25 ستمبر کو مقامی وقت کے مطابق صبح 8 بجکر 52 منٹ پر امریکا کے ریاست یوٹاہ کے مغربی صحرا پر بحفاظت لینڈ ہوا تھا۔
اس کے نمونے ہیوسٹن میں ناسا کے جانسن اسپیس سینٹر کی ایک نئی لیب میں بھیجے گئے تھے، اس خلائی جہاز نے ’بینو‘ نامی سیارچے کی سطح کے نمونے جمع کیے تھے، سائنسدانوں کی جانب سے اس سیارچے کو ’نظام شمسی کی سب سے خطرناک چٹان‘ قرار دیا جارہا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اب ناسا نے ان نمونوں کی تصاویر جاری کردی ہیں، ناسا کے سائنسدان ڈاکٹر ایشلے کنگ نے تصدیق کی ہے کہ ’خلائی جہاز صحیح سیارچے پر گیا تھا۔‘
نیچرل ہسٹری میوزیم کے ماہرین اور کوئیک لُک کی ٹیم میں شامل پانچ دیگر ماہرین نے کاربن اور پانی کے معدنیات سے بھرپور گہرے سیاہ رنگ کے غیر معمولی پاؤڈر کی تصاویر جاری کی ہیں۔
ایریزونا یونیورسٹی کے کاسموکیمسٹ نے وضاحت دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ ان کرسٹل کے اندر پانی ہے۔
جس کے بعد کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ان نمونوں سے واضح ہوسکے گا کہ سمندروں میں پانی کیسے آیا اور زندگی کا آغاز کیسے ہوا؟ بینو کے نمونے ان حقائق کو جاننے کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔
ناسا کے منتظم بل نیلسن نے جانسن اسپیس سینٹر میں ایک بریفنگ کے دوران کہا کہ ہم یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم کون ہیں، ہم کیا ہیں، ہم کہاں سے آئے ہیں۔
ڈاکٹر ایشلے کنگ کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے نمونے دیکھنے کے لیے ڈبے کا ڈھکن اتارا تو ہر جگہ سیاہ پاؤڈر تھا،’ یہ ناقابل یقیین تھا اور خوشی کا لمحہ تھا۔