سچ خبریں: جرمنی کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی کیے جانے کی وجہ سے صیہونی ریاست کو ہتھیاروں کی برآمدات معطل کی گئی ہے۔
روئٹرز خبر رساں ادارے نے جرمنی کی وزارت اقتصادیات سے قریب ایک ذریعے کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ برلن نے انسانی حقوق کے قوانین کے متصادم ہونے کے سبب صیہونی ریاست کو ہتھیاروں کی برآمدات کے لیے نئے لائسنس جاری کرنے کا عمل معطل کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ہندوستان غزہ کی نسل کشی میں صہیونیوں کا ساتھی کیوں بنا؟
جرمن حکومت نے غزہ میں فلسطینی عوام کے قتل عام کے 12 ماہ بعد دعویٰ کیا ہے کہ انسانی بنیادوں پر کچھ اسلحہ کی فروخت کو اسرائیل کو معطل کر دیا گیا ہے۔
رشیا ٹوڈے نے بدھ کی شام اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ روئٹرز نے جرمن وزارت اقتصادیات سے قریب ایک ذریعے کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ جرمن حکومت نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات کے لیے نئے لائسنس کے اجرا کو قانونی معاملات کے حل تک روک رکھا ہے۔
روئٹرز کے مطابق جرمنی نے تل ابیب کو ہتھیاروں کی برآمدات کے لیے نئے لائسنس کو قانونی ضوابط سے متصادم ہونے کے سبب روک دیا ہے۔
ایک جرمن اقتصادی ذریعے نے روئٹرز کو بتایا کہ برلن اسرائیل کو اسلحہ کی برآمدات کے قانونی چیلنجوں کے حل کے انتظار میں ہے کیونکہ ان لائسنسوں کا اجراء انسانی قوانین کے ساتھ حقوقی تنازعہ رکھتا ہے۔
جرمن وزارت اقتصادیات کے بیان کے مطابق، پچھلے سال جرمن حکومت نے اسرائیل کو 363.5 ملین ڈالر مالیت کے ہتھیاروں کی برآمد کے لیے لائسنس جاری کیا تھا جس میں فوجی ساز و سامان اور جنگی اسلحہ شامل تھا اور یہ رقم 2022 کی نسبت تقریباً 10 گنا زیادہ تھی۔
مزید پڑھیں: برطانیہ کیسے صیہونیوں کی خدمت کر رہا ہے؟
رپورٹ کے مطابق جرمن حکومت نے اس سال 21 اگست تک صرف 14.5 ملین یورو کے ہتھیاروں کی برآمد کی منظوری دی جس میں سے جنگی اسلحہ کا حصہ صرف 32449 یورو کا ہے۔