جدہ (سچ خبریں) ایران میں گذشتہ روز صدارتی انتخابات برگزار ہوئے جس میں ایرانی عوام نے لگ بھگ 60،000 پولنگ اسٹیشنوں پر بڑے جوش و خروش سے حاضر ہوکر اپنے ووٹ ڈالے۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق بیرون ملک مقیم ایرانیوں نے بھی اپنے ملک کے اگلے صدر کے انتخاب کے لئے 234 پولنگ اسٹیشنوں خصوصا عراق، لبنان اور شام میں حصہ لیا۔
ایک طرف جہاں ایرانی عوام نے مکمل آزادی کے ساتھ اپنے ملک کے صدر کے انتخاب کے لیئے ووٹ ڈالے وہیں دوسری طرف حسب روایت، سعودی عرب کی آمرانہ حکومت، جو انتخابات سے بالکل اجنبی ہے اور وہاں کی عوام نے انتخابات کا نام تک نہیں سنا اس نے ایرانی انتخابات پر کڑی تنقید کی جو جس سے ان کی دماغی حالت کا صاف اندازہ ہوتا ہے۔
سعودی عرب کہ جس کے وزراء اور چیف ایگزیکٹوز بھی براہ راست بادشاہ کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں، اور حکومتی ڈھانچے میں عوام کا کوئی کردار نہیں ہے اور جس کا نظام مکمل موروثی ہے، اس نے ایران پر تنقید کی ہے ایسے ملک پر جس نے پچھلے 40 سالوں میں درجنوں جمہوری انتخابات کرائے ہیں۔
سعودی اخبار "الریاض” نے "ایران کے انتخابی شو .. اور بڑے پیمانے پر عوامی بائیکاٹ” کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا جس میں یہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ ایران میں ہونے والے انتخابات میں بہت کم لوگوں نے شرکت کی لیکن ایرانی عوام نے بھاری تعداد میں شرکت کرکے سعودی عرب کی اس سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے اس اخبار کو منہ توڑ جواب دے دیا۔
پوری دنیا جانتی ہے کہ آل سعود حکومت خطے میں سب سے بڑی آمرانہ حکومت ہے اور یہاں تک کہ اسے ہر طرح کے معاشی اور سیاسی بحرانوں کا سامنا ہے، جبکہ ایران میں جمہوریت پر مبنی ایک نظام موجود ہے جس میں مختلف افراد اور گروہ مختلف سیاسی اور ثقافتی نظریات کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔
واضح رہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں جمہوری نظام حکومت رائج ہے، جمہوری ممالک میں ایک سسٹم کے تحت انتخابات کے نتیجے میں حکومتیں برسراقتدار آتی ہیں اور طے شدہ مدت کی تکمیل پر دوبارہ جمہوری طریقۂ کار کے تحت انتخابات ہوتے ہیں لیکن آج بھی کچھ عرب ممالک ایسے ہیں جہاں پر شاہی نظام حکمرانی ہے، جن میں سے سعودی عرب سب سے بڑا وہ ملک ہے جہاں آج بھی آمرانہ اور موروثی نظام حاکم ہے اور انسانی حقوق کی شدید پامالیاں کی جاتی ہیں لیکن سعودی عرب اپنی اس غیر انسانی حرکتوں کو چھپانے اور اسرائیل کے اشاروں پر ایران کے خلاف اس طرح کی مضحکہ خیز باتیں کرتا رہتا ہے جس سے بالکل یہ واضح ہوتا ہے کہ سعودی عرب کے ظالم حکمرانوں کا دماغی توازن کافی خراب ہوچکا ہے جسے صحیح کرنے کے لیئے سعودی عرب میں ایک جمہوری نظام کی ضرورت ہے۔