سچ خبریں: ایک اسٹریٹیجک تجزیہ کار نے لکھا کہ دو دن میں صیہونی پر فلسطینی مزاحمتی تحریک کی تین مہلک ضربوں کا تل ابیب پر گہرا اثر پڑے گا اور غزہ کی جنگ کے مستقبل کو بدل دے گا۔
یہ بھی پڑھیں: صیہونی آبادکاروں میں خوف و ہراس کی لہر
علاقائی مسائل کے تجزیہ کار عبدالباری عطوان نے روزنامہ رأی الیوم میں اپنے کالم میں لکھا کہ صیہونی حکومت کو بین الاقوامی عدالتوں میں سیاسی اور قانونی جھٹکے لگ رہے ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ اہم عسکری اور میدانی حملے ہیں جن کا سامنا صیہونی حکومت کو گزشتہ دو دنوں میں کرنا پڑا ہے، ان کے تل ابیب پر موجودہ اور مستقبل میں خطرناک اثرات ہوں گے۔
چونکا دینے والے تین حملے
اس تجزیے میں ان حملوں کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں:
1۔ پہلا حملہ:
القسام بریگیڈز نے تل ابیب پر 12 بیلسٹک میزائل داغے، جس نے صیہونیوں میں خوف وہراس کی لہر دوڑا دی، تین اسرائیلی زخمی ہوئے اور بین گورین بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پروازیں روک دی گئیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ میزائل رفح کے محاصرے شدہ علاقے سے داغے گئے تھے۔
2۔ دوسرا حملہ:
حماس کے عسکری ترجمان ابوعبیدہ نے اعلان کیا کہ ہفتہ کی شام مزاحمتی تحریک نے ایک مشترکہ آپریشن کیا اور غزہ کے مشرق میں ایک سرنگ میں صیہونی خصوصی فورسز کے 16 افسران اور سپاہیوں کو گھیر لیا، جس میں متعدد صیہونی ہلاک اور زخمی ہوئے اور کچھ قید کر لیے گئے نیز ان کے ہتھیار بھی قبضے میں لے لیے گئے۔
3۔ تیسرا حملہ:
دشمن کے پانچ مرکاوا ٹینک اور دو بلڈوزر یاسین 105 مارٹر گولوں سے تباہ کیے گئےاور کئی بکتر بند گاڑیاں بھی تباہ کی گئیں۔
عطوان مزید لکھتے ہیں کہ ان تین آپریشنز کی اہمیت صرف اس میں نہیں ہے کہ یہ دو دنوں کے دوران کیے گئے اور غزہ میں آٹھ ماہ کی جنگ کے بعد ہوئے بلکہ یہ آپریشنز مزاحمتی بریگیڈز کی قوت اور استقامت، ان کی غیر معمولی عسکری صلاحیتوں، جنگی حکمت عملیوں اور منصوبہ بندی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
غزہ کی جنگ پر مزاحمتی کارروائیوں کے اثرات
عطوان اپنے کالم کے ایک اور حصے میں لکھتے ہیں کہ صیہونی فوجیوں کی قید کی خبر نہ صرف قابض فوج کی اپنے فوجیوں اور آبادکاروں کی حفاظت میں اپنے اہداف کے حصول میں ناکامی کو ظاہر کرتی ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ فلسطینی مزاحمت نے صیہونی قیدیوں کی تعداد بڑھانے کی ایک نئی حکمت عملی اپنائی ہے اور ساتھ ہی ساتھ جدید میزائلوں کا استعمال بھی جاری رکھا ہے، جس نے نیتن یاہو اور ان کی جنگی کونسل کو حیران کر دیا ہے، اس طرح نیتن یاہو کی حکمت عملی نہ صرف صیہونی قیدیوں کی رہائی میں ناکام ہوتی ہے، بلکہ قیدیوں کی تعداد میں بھی اضافہ کرتی ہے۔
مزید پڑھیں: فلسطینی مجاہدین کا صیہونیوں کے لیے اہم پیغام
یہ اسٹریٹیجک تجزیہ کار تل آویو کی اس جنگ میں ناکامی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رفح پر حملے، جس کی بہت تشہیر کی گئی تھی، میں بڑے پیمانے پر انسانی نقصانات ہوں گے، اور اسی وجہ سے فوج نے اپنے مشرقی رفح میں موجود دستے کم کر دیے ہیں اور خصوصی گفعاتی بریگیڈ کو اس علاقے سے نکال لیا ہے۔