کابل (سچ خبریں) افغانستان میں حکومت اور مقامی جنگو کے مابین شدید تناؤ کے بعد سرکاری فوج اور جنگجوؤں کے مابین خونریز جھڑپوں کا آغاز ہوگیا ہے جس کے بعد مزید تشدد کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
افغانستان کی حکومت اور ایک طاقتور مقامی جنگجو کے درمیان تناؤ بڑھ رہا ہے جہاں جنگجوؤں اور سرکاری فوج کے درمیان دیہی صوبے میں خونریز جھڑپوں کا آغاز ہوگیا ہے۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق خدشہ یہ ہے کہ جہاں امریکی فوجی دستوں کا افغانستان سے فوجی انخلا ہوگا وہیں تشدد مزید انتشار کا باعث بن سکتا ہے۔
وزیر دفاع نے گزشتہ ہفتے جنگجوؤں پر ایک فوجی ہیلی کاپٹر کو مار گرانے کا الزام عائد کرنے، جس میں سوار 9 اہلکار ہلاک ہوگئے تھے، کے بعد حکومت نے وسطی میدان وردک صوبے میں حملوں کا آغاز کردیا ہے، یہ عبدالغنی علی پور کے ساتھ طویل تاریخ میں تازہ پیش رفت ہے جو تیزی سے خونی ہو رہی ہے۔
جنوری میں سیکیورٹی فورسز نے صوبے کے ایک ضلع میں عبدالغنی علی پور کے متعدد حامیوں سمیت مظاہرین پر فائرنگ کرتے ہوئے کم از کم 11 شہریوں کو ہلاک کردیا تھا۔
عبد الغنی علی پور کو ہزارہ برادری کی بڑے پیمانے پر وفاداریاں حاصل ہیں جو میدان وردک صوبے میں آبادی کا بیشتر حصہ ہیں۔
وہ ان جنگجوؤں میں سے ایک ہے جس کی حمایت بھاری ہتھیاروں سے ملک بھر کے جنگجوؤں نے کی ہے جو پورے ملک میں مقامی قوت رکھتے ہیں۔
حکومت ان میں سے چند کے ساتھ اتحاد کر رہی ہے تاہم عبدالغنی علی پور کی طرح دیگر کابل سے اس کے کنٹرول کے خلاف مزاحمت کرتے رہتے ہیں۔
یہ جنگجو ایک ممکنہ وائلڈ کارڈ ہیں کیونکہ کئی دہائیوں کی جنگ کے بعد افغانستان ایک نئے مرحلے میں داخل ہورہا ہے۔
واضح رہے کہ امریکا نے اپنی فوج کے انخلا کا عہد کیا ہے حالانکہ وہ یکم مئی کی آخری تاریخ کو پورا کریں گے یا نہیں، یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔