سچ خبریں:امریکی صدر کے قریبی ساتھی نے 6 جنوری 2021 کے فسادات میں ملوث افراد کو معاف کرنے کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسے ایک خطرناک اقدام قرار دیا ہے۔
رشیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق جو ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی اتحادی امریکی سینیٹر لنڈسی گراہم نے 6 جنوری 2021 کے فسادات اور کانگریس کی عمارت پر حملے میں ملوث مجرموں کی معافی کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اس کے طویل مدتی نتائج کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی کانگریس کی عمارت پر حملے کے ایک لیڈر کو 18 سال قید کی سزا
گراہم نے سی این این کو بتایا کہ ان لوگوں کو معاف کرنا جنہوں نے پولیس پر حملہ کیا، عوام کو غلط پیغام دینے کے مترادف ہے۔
ٹرمپ نے 20 جنوری کو ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے جس کے تحت 6 جنوری کے فسادات سے متعلق تقریباً 1500 قیدیوں کو معافی دی گئی۔ ان میں شدت پسند گروپ "اوَتھ کیپرز” کے بانی اسٹیورٹ روڈز کا نام بھی شامل ہے، جسے 2022 میں سازش کا مرتکب قرار دیا گیا تھا اور 18 سال قید کی سزا دی گئی تھی، جو فسادات کے ملزمان میں دوسری سب سے سخت سزا ہے۔
قانونی ماہرین اور قانون سازوں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ شدت پسند گروہوں کو مزید جری کر سکتا ہے۔
جنوبی کیرولائنا سے ریپبلکن سینیٹر اور ٹرمپ کے دیرینہ ساتھی لنڈسی گراہم نے اس عام معافی کے فیصلے کے اثرات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں اس فیصلے کو پسند نہیں کرتا اور مجھے لگتا ہے کہ عوام بھی اسے قبول نہیں کریں گے۔
ان کے بقول، غیر محدود معافی کا اختیار صدارتی اختیارات پر عوامی اعتماد کو کم کر دے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ رویہ جاری رہا اور معمول بن گیا، تو صدارتی معافی کے اختیار کو محدود کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
دوسری طرف، جے ڈی وینس، جو ٹرمپ کے نائب ہیں، نے ان تنقیدوں کے جواب میں کہا کہ تمام قیدیوں کے کیسز کا جائزہ لیا جائے گا اور جو افراد تشدد کے جرائم میں ملوث ہوں گے، انہیں معافی نہیں دی جائے گی۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ کا کانگریس پر حملے کے دن گرفتار ہونے والوں کی رہائی کا مطالبہ
6 جنوری کے فسادات کے دوران، ٹرمپ کے حامیوں نے 2020 کے انتخابات میں جو بائیڈن کی جیت کی توثیق روکنے کی کوشش میں کانگریس کی عمارت پر دھاوا بولا، پولیس اور سیکیورٹی اہلکاروں پر حملہ کیا اور سرکاری املاک کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا۔