لندن (سچ خبریں) برطانوی حکومت کی جانب سے پاکستان کو ریڈ لیسٹ میں رکھنے کے معاملے کو لے کر برطانوی اراکین پارلیمنٹ نے اپنی ہی حکومت پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اس فیصلے کو گھناؤنا اقدام قرار دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق برطانوی اراکین پارلیمنٹ نے پاکستان کو بین الاقوامی سفر کے لیے اپنی ریڈ لسٹ میں رکھنے اور کووڈ 19 کی صورت حال زیادہ سنگین ہونے کے باوجود بھارت کو امبر لسٹ میں ترقی دینے پر اپنی حکومت کے گھناؤنے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
برطانیہ میں بین الاقوامی سفر کے لیے ٹریفک لائٹ نظام نافذ ہے جس میں کم خطرناک ممالک کو قرنطینہ کے بغیر سفر کے لیے گرین، درمیانے خطرے والے ممالک کو ‘امبر’ کا درجہ دیا گیا ہے اور ریڈ لسٹ کے ممالک کے باشندوں کو 10 روز ایک ہوٹل میں قرنطینہ میں گزارنے کی ضرورت ہے۔
اپریل کے اوائل میں پاکستان کو ریڈ لسٹ میں رکھا گیا تھا جس کے بعد 19 اپریل کو کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ڈیلٹا کے مختلف کیسز کے سامنے آنے کے بعد بھارت کو بھی اس فہرست میں شامل کرلیا گیا تھا۔
برطانوی حکومت کی طرف سے جاری کردہ سفری فہرستوں کی اپڈیٹ میں بحرین، قطر اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھارت کو بھی 8 اگست (اتوار) سے امبر لسٹ میں منتقل کردیا جائے گا، بریڈ فورڈ ویسٹ کی ایم پی ناز شاہ نے کہا کہ وہ اس اقدام پر حیران ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب برطانیہ نے اپنے قرنطینہ ٹریفک لائٹ سسٹم کے انتظامات میں گھناؤنے رویے کا مظاہرہ کیا ہو۔
انہوں نے سوال کیا کہ پاکستان ابھی تک ریڈ لسٹ میں کیوں ہے جب کہ اس کے سات روز کے انفیکشن کی شرح 14 فیصد ہے جبکہ بھارت میں یہ شرح 20 فیصد ہونے کے باوجود وہ امبر لسٹ میں ترقی پاچکا ہے جو اس فہرست میں شامل دیگر ممالک سے بہت زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ آخری بار جب حکومت نے سائنس کے بجائے سیاسی پسندیدگی پر فیصلہ کیا تھا تو ہماری قوم کی کورونا وائرس سے جنگ میں مشکلات بڑھ گئی تھی جس کی وجہ سے ڈیلٹا قسم برطانیہ میں سب سے نمایاں کورونا قسم بن گیا، اس فیصلے کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے انہوں نے اس مسئلے کو اٹھانے کا عزم ظاہر کیا۔
بولٹن ساؤتھ ایسٹ کی رکن پارلیمنٹ یاسمین قریشی نے بھی نشاندہی کی کہ پاکستان ‘کسی قسم کی تشویش نہ ہونے کے باوجود ریڈ لسٹ میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے حکومت سے سوال کیا تھا اور اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی تھی تاہم اس سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ برطانوی حکومت، پاکستان کو ممکنہ معاشی فوائد کے لیے سزا دینا چاہتی ہے، یہ پاکستان کے ساتھ واضح امتیازی سلوک ہے۔
انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ زخم پر نمک چھڑکنے کے لیے ہوٹل کی قرنطینہ لاگت میں 450 یورو سے 800 یورو کے درمیان اضافہ ہونے والا ہے جو 2200 یورو تک پہنچ جائے گی، انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے پر برطانیہ کے وزیر ٹرانسپورٹ گرانٹ شپس کو خط لکھ رہی ہیں۔
لیٹن نارتھ کی لیبر ایم پی سارا اوون نے بھی کہا کہ تازہ ترین تبدیلیوں کے پیچھے وجوہات کو سمجھنا مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب آپ اس طرح کے اعداد و شمار دیکھتے ہیں تو ٹوری وزرا کو بہت کچھ سمجھانا پڑتا ہے کہ بھارت کیوں امبر فہرست میں جا رہا ہے اور پاکستان اور دیگر ممالک اب بھی ریڈ لسٹ پر ہیں۔
انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ بغیر کسی جانچ پڑتال کے تنہائی میں لیے گئے فیصلے کبھی بھی ان لوگوں کے لیے اچھے نہیں ہوتے جن کی ہم نمائندگی کرنا چاہتے ہیں، ان فیصلوں کے بڑے صحت (اور) ذاتی نتائج سامنے آتے ہیں۔