میانمار (سچ خبریں) میانمار کی باغی فوج اس قدر بوکھلائی ہوئی ہے کہ اس کے غیرقانونی اور ظالمانہ اقدامات کے خلاف جو بھی بولتا ہے اس کے خلاف شدید کاروائی کی جارہی ہے اور اب میانمار کی فوجی حکومت نے اقوام متحدہ میں تعینات اپنے سفیر کے خلاف بڑا قدم اٹھاتے ہوئے اس کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق میانمار کے اقتدار پر قابض باغی فوج نے آنگ سان سوچی کی حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ میں تعینات سفیر کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرتے ہوئے اس پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے حکومت کی بغاوت کے خلاف آواز بلند کی ہے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق دارالحکومت میں فوج داری عدالت نے ڈاکٹر ساسا کے خلاف سول نافرمانی کا فیصلہ سناتے ہوئے گرفتاری کے احکامات جاری کیے، ذرائع ابلاغ کے مطابق میانمار کے سفیر ڈاکٹر ساسا فوجی بغاوت کے بعد سے سوشل میڈیا پر عسکری قیادت کے خلاف سرگرم ہیں۔
اس سے قبل انہوں نے اقوام متحدہ میں اپنے خطاب میں باغی فوج کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا، انہوں نے سوشل میڈیا پر میانمر کے شہریوں سے اپیل کی تھی کہ انہیں فوج اور پولیس کے انسانیت سوز سلوک کی وڈیو بھیجی جائیں تاکہ وہ عالمی فورم پر ثبوت کے طور پر پیش کرسکیں۔
انہوں نے مبینہ طور پر میانمر کے جنگجو گروپوں کے ساتھ رابطہ بھی کیا اور باغی فوج کے خلاف مزاحمت پر آمادہ کرنے کی کوشش بھی کی۔
دوسری جانب جنیوا میں قائم اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفتر میں یکم فروری کو ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد سے 149ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے، تاہم سیاسی اسیران کی مقامی تنظیم کا کہنا ہے کہ آمریت کے خلاف احتجاج میں مرنے والوں کی درست تعداد 183ہے، مرنے والے میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
باغی فوج نے ینگون میں مارشل لا کے دائرے کو مزید 2اضلاع تک بڑھا دیا،جس کے بعد اب وہاں کے انتظامی اور عدالتی اختیارات فوج کے ہاتھ میں چلے گئے ہیں، ینگون اور مندالے سمیت کئی شہروں میں سیکورٹی اہل کاروں اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن جارک کا کہنا ہے کہ میانمار میں مظاہرین کے خلاف جاری تشدد اور عوام کے بنیادی حقوق کی پامالی پر عالمی ادارے کو سخت تشویش لاحق ہے۔