سچ خبریں:فرانسیسی پارلیمنٹ کی رکن آلما دوفور نے انکشاف کیا ہے کہ فرانس انبوکس حزب کے رہنما ژان لوک ملانشونپر اسرائیلی حکومت اور فرانسیسی انتہا پسند دائیں بازو کے گروہوں نے دو بار قتل کی ناکام کوشش کی۔
فرانسیسی پارلیمنٹ کی رکن آلما دوفور نے ایک ٹی وی پروگرام میں انکشاف کیا کہ ملانشون، جو فرانسیسی پارلیمنٹ کے رکن ہونے کے ساتھ یورپی پارلیمنٹ میں بھی فرانس کی نمائندگی کرتے ہیں، ان حملوں کا نشانہ بنے۔
صہیونی اور دائیں بازو کے خطرناک دھمکی آمیز پیغامات
آلما دوفورنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکسپر ان دھمکیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ہمیں مسلسل صہیونی گروہوں اور فرانسیسی دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ اور لبنان کی جنگ میں فرانس کی دوغلی پالیسی
یہ دھمکیاں ملانشون کے اسرائیلی حکومت کے خلاف سخت مؤقف اور غزہ میں جاری نسل کشی کی مذمت کے بعد سامنے آئیں۔
غزہ میں نسل کشی اور ملانشون کا بیان
ژان لوک ملانشون نے منگل کو ایک ویڈیو بیان میں کہا:
جو کوئی بھی غزہ میں نتین یاہو کی حکومت کے مظالم اور نسل کشی پر تنقید کرتا ہے، اسے فوراً یہود مخالف قرار دیا جاتا ہے۔
یہ بیان بین الاقوامی سطح پر اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف مزید سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
اسرائیل اور فرانس کے فٹ بال میچ پر آلما دوفور کی تنقید
آلما دوفور نے فرانس اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے فٹ بال میچ پر سخت اعتراض کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ میچ بین الاقوامی قوانین کی کھلی توہین ہے۔ اسرائیل، جس نے بین الاقوامی عدالت انصاف کے احکامات کی خلاف ورزی کی ہے، کو فرانس میں کھیلنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، بالکل اسی طرح جیسے روس کو اس کی خلاف ورزیوں پر نکالا گیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ فرانسیسی صدر ایمانویل میکرونکی اس موقع پر موجودگی نے مشرق وسطیٰ میں فرانس کی حیثیت اور ساکھ کو مزید کمزور کیا ہے۔
فرانس اور اسرائیل کے تعلقات میں نیا موڑ
ژان لوک ملانشون پر اسرائیل اور دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی جانب سے حملے کی کوشش نے فرانس اور اسرائیل کے تعلقات پر ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے۔
ملانشون کے سخت بیانات اور آلما دوفور کے انکشافات نے فرانس کی اندرونی سیاست کے ساتھ بین الاقوامی تعلقات کو بھی متاثر کیا ہے۔
مزید پڑھیں: فلسطین کے حامیوں کا فرانس اور اسرائیل کے درمیان فٹبال میچ کی منسوخی کا مطالبہ
اس تنازع نے فرانسیسی حکومت اور اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات کے حوالے سے اہم سوالات کو جنم دیا ہے، جن پر غور کرنا ضروری ہو گیا ہے۔