لکھنئو (سچ خبریں) بھارت میں بی جے پی کے ایجینٹ اور نام نہاد مسلمان، دشمن قرآن وسیم رضوی کے ذریعہ قرآن کریم سے 26 آیات کو ہٹانے کے بیان اور اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں داخل عرضی کے خلاف تمام شیعہ سنی علماء اور عوام نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق اتر پردیش، بھارت کے شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی نے قرآن کریم کی 26 آیتوں کو حذف کرانے کیلئے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی ہے جس کے خلاف بھارت کے تمام مسلمانوں نے متحد ہوکر شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے اور اس دشمن اسلام کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نے پریس رلیز میں وسیم رضوی کی قرآن کریم کیخلاف جُرت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ قرآن کی کسی آیت میں تبدیلی کا سوچنا تو دور اس کے زیر و زبر اور ایک نقطہ تک میں بھی ترمیم کی گنجائش نہیں ہے۔
دوسری جانب رضا اکیڈمی کے چئیرمین سعید نوری نے سپریم کورٹ میں دائر کردہ پٹیشن کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے، حضرت سید معین میاں نے بھی کہا ہے کہ قرآن مقدس کی توہینِ ہرگز برداشت نہیں کی جاے گی جبکہ اکیڈمی کے صدر سعید نوری نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام قرآن مجید میں ایک زیر زبر کی بھی تبدیلی ناممکن ہے۔ وسیم رضوی کو ملک میں دوفرقوں کو لڑانے کے جرم میں فوراً گرفتار کیا جائے۔
دریں اثناء رضا اکیڈمی کے سربراہ الحاج محمد سعید نوری نے وسیم رضوی کی اس جرت کے خلاف فوراً سینر وکیل رضوان مرچنٹ سے بھی رابطہ قائم کیا ہے۔
مولانا محمد ولی کا کہنا تھا کہ آج تک جتنے لوگوں نے قرآن کریم پر اعتراض کرنے کی کوشش کی انہیں منہ کی کھانی پڑی اور وہ اپنے ارادہ میں ناکام و نامراد ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وسیم رضوی کی یہ حرکت کوئی نئی نہیں ہے۔ اسلام، مسلمانوں اور شعائر اسلام کو نقصان پہنچانے کی کوشش ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں۔ جو لوگ اس سے واقف ہیں اور خبروں پر نگاہ رکھتے ہیں وہ اس کو اچھی طرح جانتے ہیں۔
دوسری جاب شیعہ رہنما مولانا سید کلب جواد نے واضح الفاظ میں وسیم ملعون کو اسلام دشمن عنصر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وسیم ملعون اسلام دشمن عنصر ہے اور اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ وہ متعصب اداروں اور مسلمان دشمن تنظیموں کا آلۂ کاربنا ہوا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تمام شیعہ و سنی علماء اور سیاسی و سماجی رہنماؤں کو اس کے خلاف متحد ہوکر احتجاج کرنا چاہیے اور حکومت سے اس کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کرنا چاہیے تاکہ ملک بدامنی اور انتشار سے محفوظ رہے۔