جرمنی (سچ خبریں) جرمنی میں نسل پرستی اور مسلمانوں کے خلاف حملوں کے الزام میں 12 افراد کے خلاف دائر مقدمے کی کارروائی شروع ہوگئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی استغاثہ کا کہنا ہے کہ ایس گروپ حکومتی اور سماجی نظام کو تباہ کرنے کی کارروائیوں میں ملوث ہے، ان افراد پر سماجی بد امنی کو ہوا دینے اور مسلمانوں، پناہ گزینوں اور سیاسی دشمنوں پر حملے کرنے کا الزام ہے۔
جنوب مغربی شہر اشٹٹ گارٹ کی عدالت میں سماعت کے دوران استغاثہ نے بتایا کہ ستمبر2019 ء میں ایس گروپ نامی دہشت گرد تنظیم قائم کی تھی، انتہائی دائیں بازو کے اس گروہ کی قیادت وارنر ایس اور ٹونی ای نامی ملزمان کے ہاتھوں میں تھی۔
مقدمے کے دوران 12 افراد پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ پناہ گزینوں اور مسلمانوں پر حملے کرنے کا منصوبہ تیار کرنے میں ملوث تھے، 3 افراد پر الزام تھا کہ انہوں نے 8 ترک، ایک یونانی اور ایک خاتون پولیس اہلکار کو نفرت کی وجہ سے قتل کیا تھا، چھاپا مار کارروائیوں کے دوران ان کے پاس سے ہتھیار، کلہاڑیاں اور تلواریں برآمد کی گئیں تھیں۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق جرمنی میں نسل پرستی اور انتہاپسندی کا بڑھتا ہوا رجحان حکومت کے لیے دردِ سر بن چکا ہے، جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کا کہنا ہے کہ دائیں بازو کی انتہا پسندی جرمنی کے لیے سب سے بڑا سیکورٹی خطرہ ہے۔
فروری میں جرمن پولیس کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار میں بتایا گیا کہ 2020 ء میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے جرائم 4 برس کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے۔
جنوری میں نیو نازی اسٹیفان ارنسٹ کو مہاجرین کے حامی سیاست داں والٹر لیوبیک کو قتل کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا دی گئی تھی۔
فروری 2020 ء میں انتہائی دائیں بازو کے ایک شدت پسند نے 2 شیشہ بار پر فائرنگ کرکے 9 افراد کو ہلاک اور 5 کو زخمی کردیا تھا، اس قتل عام کو جرمنی میں جنگ کے دور کے بعد سے سب سے مہلک نسلی حملہ قرار دیا گیا تھا، اکتوبر 2019 ء میں یہودیوں کے تہوار کے موقع پر عبادت خانے پر کیے گئے حملے میں 2 افراد ہلاک ہوئے تھے۔