سچ خبریں:حزب اللہ کے سکریٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے کہا ہے کہ لبنان میں اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے حزب اللہ کی مزاحمت نے کامیابی حاصل کی، کیونکہ اسرائیل اپنے مقصد یعنی حزب اللہ کو ختم کرنے اور آبادکاروں کو بغیر کسی معاہدے کے واپس بھیجنے میں ناکام رہا۔
العہد نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حزب اللہ کے سکریٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ غزہ کی حمایت کرنا ہمارا فرض تھا اور یہ عمل عرب اور مسلم عوام کے لیے نہایت قیمتی تھا۔
یہ بھی پڑھیں: صیہونی حکومت کی مکمل طور پر شکست اور حزب اللہ کی 2006 سے فتح بڑی ہے: نعیم قاسم
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں ہمیشہ یہ خدشہ تھا کہ اسرائیل لبنان پر حملہ کرے گا، ہم نہیں جانتے تھے کہ یہ حملہ کب ہوگا، مگر یہ بات طوفان الاقصیٰ سے پہلے اور بعد میں بھی زیر غور تھی۔
نعیم قاسم نے اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے جرائم کو اس کی توسیعی منصوبہ بندی کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دشمن چاہتا ہے کہ جو بھی مزاحمت اس کے علاقے میں اس کی توسیع کے خلاف کھڑی ہو، وہ ختم کر دی جائے، لیکن اس کے جرائم کامیاب نہیں ہوئے اور یہ اس کے لیے کوئی کامیابی نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے دشمن کے مقاصد کو ناکام بنایا، آبادکاروں کو نقل مکانی پر مجبور کیا، لیکن دشمن کی واحد کامیابی یہ رہی کہ اس نے ہمارے کمانڈروں کو قتل کیا، جس سے ہمیں درد پہنچا۔
شیخ نعیم قاسم نے اس بات پر زور دیا کہ حزب اللہ کبھی بھی تسلیم نہیں ہوگی اور نہ ہی ذلت قبول کرے گی ،انہوں نے کہا کہ دشمن نے سمجھ لیا کہ حزب اللہ کی مزاحمت سے سامنا کرنا ایک بند گلی ہے اور اسی وجہ سے اس نے اپنی جارحیت روکنے کے لیے معاہدے کی جانب قدم بڑھایا۔
قاسم نے کہا کہ مزاحمت اس لیے کامیاب ہوئی کیونکہ دشمن اپنے اصل مقصد یعنی حزب اللہ کو ختم کرنے اور آبادکاروں کو بغیر کسی معاہدے کے واپس بھیجنے میں ناکام رہا، ہم نے لبنان کے دروازے سے دشمن کو نیا مشرق وسطی میں داخل ہونے سے روکا۔
شیخ نعیم قاسم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یہ معاہدہ صرف اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے ہے، مزاحمت کے خاتمے کے لیے نہیں، یہ معاہدہ 1701 قرارداد کے تحت ہے اور صرف جنوبی لبنان میں نافذ ہوگا۔
حزب اللہ نے اسرائیل کی جانب سے ہونے والے سینکڑوں جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے باوجود اس معاہدے کے نفاذ میں مدد فراہم کرنے اور اس میں رکاوٹ نہ ڈالنے کے لیے صبر دکھایا۔
شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ فلسطین اس خطے کی آزادی کا مرکز ہے، کیونکہ اسرائیل نے اس پر اپنے حملے کو علاقے کے دیگر حصوں کو زیر تسلط لانے کے لیے بنیاد بنایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مقاومت کا مطلب صرف دشمن کا مقابلہ کرنا نہیں، بلکہ اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس سے امتیاز حاصل کرنا ہے، قاسم نے اس بات پر زور دیا کہ اگرچہ مقاومت کے وسائل محدود ہیں، مگر یہ میدان میں جاری رہنی چاہیے، کیونکہ یہی کامیابی کی کلید ہے۔
شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ حزب اللہ کی مقاومت ایمان اور تیاری کے لحاظ سے مستحکم ہے، اور دشمن کے خلاف اس کی جانفشانیوں کا عزم بڑھا ہے۔ ہر مرحلہ اپنی حکمت عملی اور طریقہ کار کا تقاضا کرتا ہے، اور ہم اسی بنیاد پر اپنے اقدامات کو آگے بڑھاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں کی پائیداری کی بدولت، لبنان پر اسرائیلی حملے کو سرحدوں تک محدود کر دیا گیا ہے،اگر مقاومت کی پائیداری نہ ہوتی، تو اسرائیل بلا شبہ بیروت تک پہنچ کر اپنے ترقی پسند منصوبوں کو آگے بڑھاتا۔
شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ امریکہ کی حمایت میں اسرائیل نے شام کی فوجی طاقت کو پیش بندی دفاع کے نام پر تباہ کیا، اور اس خطے کو تباہ کرنے کے لیے اپنے منصوبے کو جاری رکھا۔
تاہم، حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں نے مل کر اس کی ترقی پسندانہ پالیسیوں کو لبنان میں ناکام بنایا۔
انہوں نے کہا کہ حزب اللہ مضبوط ہے، مسلسل ترقی کر رہا ہے اور اس کی مقاومت جاری ہے، لبنان اپنی اندرونی طاقت سے مضبوط ہے، ہر وہ شخص جو اسرائیل کی حمایت کرتا ہے، وہ ناکامی سے دوچار ہو چکا ہے۔”
قاسم نے حزب اللہ کے آئندہ کے منصوبوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد جنوبی لیتانی کے علاقے میں 1701 قرارداد کی تکمیل اور لبنان کی بازسازی ہے، ساتھ ہی لبنان کے نئے صدر کا انتخاب بھی ان کے ایجنڈے میں شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت شام کو نئے عناصر نے سرنگون کیا ہے، لیکن ہم تب تک ان کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے جب تک کہ وہ اپنے موقف کو واضح نہ کریں اور اپنے امور کو بہتر نہ بنائیں۔
مزید پڑھیں: اسرائیل کے پاس لبنان میں جنگ بندی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں
شیخ نعیم قاسم نے شام کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ نے شام کی حمایت اس لیے کی کیونکہ وہ اسرائیل کے دشمن کے طور پر کھڑا تھا، ہمیں امید ہے کہ شام کی نئی حکومت اسرائیل کو دشمن سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں لائے گی۔