سچ خبریں:شام میں یمن کے سفیر عبداللہ علی صبری نے کہا کہ امریکہ اور سعودی عرب کا خیال تھا کہ یمن میں جنگ جلد اور فیصلہ کن ہوگی لیکن یمنی عوام کی استقامت نے بڑے شیطان کا سر پتھر سے ٹکرا دیا۔
یمنی ان دنوں کو اپنے قومی یوم مزاحمت کی مناسبت سے جشن منا رہے ہیں، یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو استکباری قوتوں کے خلاف اس ملک کے عوام کی ہمت، استقامت اور شجاعت کے مظہر کے طور پر پوری دنیا کے ذہنوں میں رہے گا۔
قومی یوم مزاحمت کی آٹھویں سالگرہ یمن کی تاریخ میں ایک اہم دن کے طور پر درج کی جائے گی اور یمنی عوام اس دن سے دشمن کی شدید ترین جارحیت کے مقابلے میں ایثار و قربانی کے حقیقی معنی سے آگاہ ہوں گے،تاریخ کی کتابیں یمنی عوام کی افسانوی اور بہادرانہ استقامت کو ہمیشہ کے یاد کریں گی، وہ استقامت جس نے نئی مساوات ایجاد کی اور جارح ممالک نیز ان کے کرائے کے فوجیوں کو دولت کی لوٹ مار اور یمن کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرنے پر مجبور کیا۔
اسی سلسلہ میں شام میں تعینات یمن کے سفیر کا کہنا ہے کہ یمن اپنے اہم سٹریٹجک محل وقوع، انسانی دولت، تاریخ اور تہذیب کی وجہ سے صدیوں سے نشانہ بنا ہے۔ عصری تاریخ یمن کے گھٹن اور محاصرے کو اس لیے دکھاتی ہے تاکہ وہ اپنا قومی اور علاقائی کردار ادا نہ کر سکے، سعودی عرب نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے یمن کی فیصلہ سازی میں سب سے بڑا کردار ادا کیا ہے، ریاض تیس سال سے زیادہ عرصے سے طاقت کے میدان میں سرفہرست رہنے والے کمزور ذہن رکھنے والے یمنیوں کو بڑی مالی مدد فراہم کرکے اس ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا تھا۔
یمنی سفیر کا کہنا تھا کہ امریکہ اور سعودی عرب کا خیال تھا کہ یمن کی جنگ تیز اور فیصلہ کن ہو گی اور وہ اس ملک میں ایک ایسا حکمران طبقہ پیدا کریں گے جو صیہونی امریکی منصوبے کا مرہون منت ہوگا لیکن یمنی عوام کی استقامت، شجاعت اور آٹھ سالہ فتوحات نے ان کے خلاف جنگ لڑی، جارحیت اور محاصرہ نے مساوات کو بدل دیا اور شیطان عظیم کے سرغنہ، اس کے مددگاروں اور کرائے کے قاتلوں کا سر پتھر سے ٹکرا دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جسیا کہ واضح ہو چکا ہے کہ صیہونی حکومت بالواسطہ اور بالواسطہ طور پر یمن کے بعض تزویراتی مقامات جیسے باب المندب اور سقطری پر قبضے میں ملوث ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یمن کو ایک عالمی جنگ کا سامنا تھا جو اس کے کردار اور وجود کو کے لیے عالمی سازش تھی۔