سچ خبریں:سعودی اور اماراتی اتحاد کی جانب سے امریکی اور یوروپی ہتھیاروں کے ساتھ یمن پر حملہ حالیہ برسوں میں ایک بہت بڑا علاقائی مسئلہ رہا ہے اور اس بحران کے خاتمے کے لئے متعدد کوششوں کے باوجود یمن کے شہروں پر وسیع پیمانے پر سعودی حملے اور بمباری جاری ہے۔
آئی آر این اے کے مطابق سعودیوں نے متعدد عرب ممالک کا اتحاد تشکیل دیا اور اس ملک کے مفرور صدر عبد المنصور ہادی کو اقتدار میں واپس لوٹانے کے بہانے امریکہ اور مغربی ممالک کی سبز روشنی کے ساتھ چھ سال پہلے ایک غریب ترین عرب ملک یمن پر حملہ کیا جس میں انہوں نے اس ملک کے انفراسٹرکچر اور اربوں ڈالر کی تباہی مچائی اور اب بھی جنگ کے چکر میں ہیں،سعودی اتحاد نے اس جنگ میں یمن کے بے گھر لوگوں پر ہزاروں بم اور راکٹ گرائے ہیں اور اس جرم کا مقصد یمنی محاصرے کے ساتھ یمنی خواتین اور بچوں کے قتل اور ملک کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنا ہے۔
سعودی عرب اور اس کے اتحادی اس ملک میں غیر معمولی قحط کا باعث بنے ہیں جبکہ اقوام متحدہ سے وابستہ تنظیموں نے گذشتہ صدی میں دنیا کے بدترین اور شدید قحط کی اطلاع دے رہے ہیں،عالمی ادارہ صحت اور یونیسف سمیت اقوام متحدہ کی ایجنسیوں نے بار بار متنبہ کیا ہے کہ یمنی عوام قحط اور ایک انسانی تباہی کا سامنا کررہے ہیں جو پچھلی صدی میں غیر معمولی ہے۔
دریں اثنا خطے کے کچھ ممالک نے یمن کی جنگ کے خاتمے کے لئے مشورے اور کوششیں شروع کردی ہیں جن میں قطر بھی شامل ہے جس کے بارے میں دوحہ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ علاقائی اور بین الاقوامی ثالثی کا باعث بن سکتا ہے، اس سلسلے میں مڈل ایسٹ نیوز نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ حالیہ برسوں میں قطر مختلف علاقائی معاملات میں فعال کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس سلسلے میں طالبان اور امریکہ کے مابین ہونے والی بات چیت میں ثالثی ، فلسطینی جماعتوں کے مذاکرات کی میزبانی کے علاوہ شمالی افریقہ میں اس کی فعال موجودگی اور افریقی ممالک میں دوحہ کے کردار اور ثالثی کا بھی جائزہ لیا جاسکتا ہے،حالیہ برسوں میں مشرق وسطی کے لئے خطے کا ایک انتہائی اہم مسئلہ اور ایک اہم میدان یمن کی جنگ ہے، یمنی بحران میں قطر کے کردار نے دو مختلف ادوار میں بہت سی مختلف شکلیں اختیار کیں،سنہ 2017 میں چار عرب ریاستوں متحدہ عرب امارات ، بحرین اور مصر نے ریاض کی سربراہی میں قطر پر پابندیاں عائد کیں اور اس ملک سے تعلقات منقطع کر لیے جس کے بعد مستعفی یمنی حکومت نےبھی سعودی عرب کے ساتھ دوحہ سے تعلقات منقطع کردیئے،اس وقت قطر نے اخوان المسلمین کی یمنی شاخ ، الاصلاح پارٹی کی حمایت کی اور انصار اللہ کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی،قطر کی انصار اللہ اور حزب اللہ کی حمایت کا مطلب منصور ہادی کی زیرقیادت مستعفی یمنی حکومت کا مقابلہ کرنا تھا جسے سعودی زیرقیادت اتحاد کی حمایت حاصل تھی۔
جنوبی یمن میں اپنی افواج کی مدد کرکے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے انصاراللہ کو شکست دینے اور منصور ہادی کو دوبارہ اقتدار میں لانے کی کوشش کی لہذا انصاراللہ کی مدد کرنا ایک طرح سےسعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے خلاف ایک پراکسی جنگ تھی،اگرچہ سرکاری فورمز میں دوحہ نے ان تمام الزامات کی تردید کی ہے اور انہیں بے بنیاد سمجھا ہے کہ قطر نے انصاراللہ کی حمایت کی ہے ،البتہ یمن میں اس کی فعال موجودگی ناقابل تردید تھی۔