سچ خبریں: سی آئی اے کے سابق افسر نے انکشاف کیا کہ امریکی گورننگ باڈی کے پاس اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازعہ کو کم کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ منصوبہ نہیں ہے بلککہ امریکہ کی موجودہ پالیسی صرف تل ابیب کو مالی امداد اور ہتھیار فراہم کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حماس نے اسرائیل پر حملہ کیوں کیا؟ وائٹ ہاؤس کی زبانی
اسپوٹنک نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے سابق تجزیہ کار فلپ جیرالڈی نے غزہ پر صیہونی حکومت کی جارحیت کے تیسرے دن وائٹ ہاؤس کی کارکردگی کے بارے میں اپنے تبصرے میں کہا کہ واشنگٹن کے پاس اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ کو ختم کرنے کا نہ تو کوئی سنجیدہ منصوبہ ہے اور نہ ہی اسے اس معاملے میں کوئی دلچسپی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس نے خود کو صرف تل ابیب کو مالی امداد اور ہتھیاروں تک محدود رکھا ہے۔
اسپوٹنک کے ساتھ ایک انٹرویو میں، سابق سی آئی اے افسر نے مزید کہا کہ واشنگٹن نے کانگریس یا وائٹ ہاؤس میں پیدا ہونے والے معمولی بحرانوں کو تو حل کرنے کی کوئی صلاحیت نہیں دکھائی ہے۔
انہوں نے مزید کہا امریکی حکام اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان موجودہ جنگ میں صرف اسرائیل کو مالی امداد اور ہتھیار فراہم کرنا ہی کافی سمجھتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ ریپبلکن جلد ہی اس پالیسی پر عمل کریں گے۔
مزید پڑھیں: کیا امریکہ میں یہودی ریاست بنے گی؟
یاد رہے کہ اس سے قبل صیہونی قبضے کے خلاف قابل فخر آپریشن طوفان الاقصیٰ کے بارے میں حماس کی عسکری ونگ القسام بٹالینز کے کمانڈر محمد ضیف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کے حملے کے پہلے مرحلے میں صیہونی دشمن کے فوجی ٹھکانوں پر 5 ہزار سے زائد راکٹ داغے گئے اور اس حکومت کے فوجیوں کی بڑی تعداد کو گرفتار کرلیا گیا۔