سچ خبریں:ٹوکیو 2020 اولمپکس کے دوران صہیونیوں کے چہرے پر دوسرا طمانچہ لگا ہےچونکہ سوڈانی جوڈوکا نے بھی اسرائیلی ایتھلیٹ سے مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا ہے، اس عمل نے اس حقیقت پر زور دیا ہے کہ صیہونیوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لئے رجعت پسند عرب حکومتوں کا مقابلہ کرنے کے باوجود ، اسلامی اقوام کے اصول و نظریات طے شدہ ہیں۔
الجزائر کے مشہور جوڈوکار فتحی نورین جوڈو مقابلوں کے دوسرے راؤنڈ میں قرعہ اندازی میں ان کا نام صیہونی حریف کے ساتھ آنے کے بعد صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی مخالفت کرتے ہوئے ٹوکیو 2020 اولمپک کھیلوں سے دستبردار ہوگئے،اس کے ٹھیک دو دن بعد سوڈان کے جوڈوکار محمد عبد الرسول کا نام 2020 کھیلوں میں صیہونی کھلاڑی کے مقابلہ میں جس کا انھوں نے منع کر دیا۔
سوڈان اور الجزائر کے دو ہیروز کے اصولوں نے فلسطینی کاز کے حق اور فلسطینی عوام کی مدد کرنے کی ضرورت پر روشنی ڈالی اوردنیا کو یہ پیغام دیا کہ اسرائیل ایک قابض حکومت ہے، اس کے قوانین اور اقدامات بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں،یہ غیر قانونی حکومت بے گناہوں کو ہلاک کرتی ہے اور انہیں گھروں سے بے گھر کرتی ہے لہذا یہ دونوں ہیروز نہیں چاہتے کہ مقابلوں میں اس حکومت کے نمائندوں کا مقابلہ کرکے ان کے ہاتھ معصوموں کے خون سے داغدار ہوں۔
ٹوکیو 2020 اولمپکس کے دوران عرب ایتھلیٹوں کی قربانیوں سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ عرب قومیں سوڈان ، متحدہ عرب امارات ، مراکش اور بحرین سمیت اپنے متعلقہ حکومتوں کی جانب سےصیہونیوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوششوں کی مخالفت کرتی ہیں۔
ان قربانیوں کے مقابلہ میں ، سعودی عرب جسے کچھ ممالک عالم اسلام کی کشش ثقل کا مرکز سمجھتے ہیں ، کھیل کے ذریعے صیہونیوں کے ساتھ سیاسی تعلقات کو معمول پر لانے کے منصوبے میں کلیدی کردارکرتے ہیں جس کا سعودی اور اماراتی عہدیدار وں کے بیانات سے واضح انکشاف ہوتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ صیہونیوں کے سات تعلقات معمول پر نہیں لایا ہے لیکن اس نے اس مسئلہ میں بعض ممالک کی حوصلہ افزائی اور حمایت کی ہے اور صیہونیوں کے ساتھ اتحاد کے لئے ہر موقع کو مستعدی سے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہےجس کا ایک ثبوت ایک غیر معمولی واقعہ میں ، سعودی خاتون جوڈوکا رتہانی القحطانی کا جمعہ کے روز ٹوکیو اولمپکس میں صہیونی کھلاڑی ہرشکو راز سے مقابلہ ہوگا۔
سعودی کھیلوں کے عہدیداروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے خاتون کھلاڑی کو اسرائیلی مخالف کے مقابلہ کرنے کے لیے گرین سگنل دیا ہے تاکہ انھیں بین الاقوامی اولمپک کمیٹی (آئی او سی) کی طرف سے کسی بھی قسم کی پابندی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔