سچ خبریں: صیہونی حکومت کے ایک مشہور تجزیہ نگار کے مطابق بنیامین نیتن یاہو کا طرز عمل اس بچے جیسا ہے جو اپنے والدین سے ناراض ہو۔
صیہونی اخبار ماریو کے تجزیہ کار بین کسپیت نے جنگ بندی کی قرارداد کے خلاف امریکہ کی جانب سے ویٹو کے استعمال نہ کرنے پر نیتن یاہو کے ردعمل کے بارے میں اپنے ایک حالیہ کالم میں کہا ہے کہ نیتن یاہو کا طرز عمل ایک بچے کے طرز عمل جیسا ہے جو اپنے والدین سے ناراض ہوتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے والدین سے ناراض ہے جبکہ اس کے والدین بالکل نہیں ہیں اور جو شخص اس سے ناراض ہے وہ دراصل اس کا منھ بولا باپ ہے،بین کسپٹ کے مطابق نیتن یاہو خود امریکی حکومت اور بائیڈن کے خلاف موقف اختیار کر رہے ہیں جب کہ اسرائیل کو اپنی پوری تاریخ میں امریکہ سے اتنی حمایت نہیں ملی جتنی 7 اکتوبر کے بعد ملی۔
یہ بھی پڑھیں: نیتن یاہو کی غزہ جنگ کی ذلت کو کم کرنے کی ناکام کوشش
ان کا خیال ہے کہ واشنگٹن نے غزہ میں اسرائیل کے ہاتھ (جرائم کے لیے) FIMA معاہدے سے زیادہ کھلے چھوڑے ہیں کیونکہ شروع سے ہی یہ اعلان کیا گیا تھا کہ وائٹ ہاؤس نے تل ابیب کو سال کے آخر تک آزادی کی اجازت دی پھر کہا کہ یہ جنوری کے آخر تک بڑھا دیا گیا پھر فروری آیا اور ہم مارچ تک پہنچ گئے۔
اس تجزیہ کار نے مزید کہا کہ بائیڈن نے نیتن یاہو اور اسرائیل سے جو کچھ کہا وہ یہ تھا کہ انسانی امداد کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے اور جنگ کے خاتمے کے بعد کے دن کے مسئلے کو واضح کیا جائے۔
انہوں نے تاکید کی کہ نیتن یاہو ایک بحران پیدا کرنے کے درپے ہیں، ایک ایسا بحران جس کا امریکہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں جیسے وہ اس کی تلاش میں تھے تاکہ میڈیا کی توجہ انتہا سے فوج میں خدمت کرنے سے انکار کے قانون کی طرف مبذول کرائی جائے۔
مزید پڑھیں؛ غزہ میں صیہونی مظالم کے 170 دن کے حیران کن اعدادوشمار
وہ ایک مختصر مدت کے میڈیا-سیاسی پروگرام کے لیے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو قربان کرنے کے لیے تیار ہیں جس کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر روز جب یہ شخص اس ڈھانچے میں رہتا ہے تو اسرائیل کے مستقبل کو مزید تزویراتی نقصان پہنچتا ہے۔