سچ خبریں: حالیہ دنوں میں، امریکی یونیورسٹیوں نے فلسطین کی حمایت میں احتجاج کرنے والے طلباء اور غزہ کی پٹی میں صیہونی حکومت کے جرائم کی مذمت اور ان کے جبر کی پریشان کن تصاویر ریکارڈ کیں۔
کینیڈین سول ایکٹیوسٹ ٹائلر برگلینڈ نے مہر کے ساتھ ایک انٹرویو میں ان مظاہروں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جبر کے بارے میں ہمارے سوالات کا جواب دیا۔ ہم اس گفتگو کی تفصیل پڑھتے ہیں۔
اس سے قبل امریکہ میں مشہور گروپوں اور کارکنوں نے فلسطین کی حمایت میں احتجاجی مظاہرے کیے تھے لیکن انہیں احتجاج جاری رکھنے سے نہیں روکا گیا۔ امریکی حکومت طلبہ کے احتجاج پر پرتشدد ردعمل کیوں ظاہر کرتی ہے؟
یونیورسٹیاں ایسے مراکز ہیں جہاں اسرائیل لابی بہت اہم ہے۔ اسرائیل کی لابی کس طرح نوجوانوں کو امریکی لیڈروں، اشرافیہ اور مفکرین کی آنے والی نسلوں کی مدد کے لیے تعلیم دیتی ہے اسے امریکہ اور مغرب میں اہم سمجھا جاتا ہے۔
امریکی پولیس طلبہ کے پرامن احتجاج سے پرتشدد کیوں نمٹتی ہے؟ امریکی حکومت، جو انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے دفاع کا دعویٰ کرتی ہے، طالب علموں کے لیے اس طرز عمل کو کیسے جائز قرار دے سکتی ہے؟
مغربی میڈیا کی کوریج اس طرح ہے کہ مظاہروں کو پرتشدد اور نسل پرستانہ نظر آئے۔ اس لیے وہ امریکی حکومت پرامن نسل کشی مخالف مظاہروں کے خلاف حکومتی تشدد کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
امریکی یونیورسٹیوں میں احتجاج کا تسلسل اسرائیل کی حمایت کے حوالے سے ان کی پالیسیوں پر کیا اثر ڈالے گا؟
مجھے یقین ہے کہ کچھ یونیورسٹیاں اسرائیل کے ساتھ مالیاتی تعلقات کا بائیکاٹ اور منقطع کرنے کی کوشش کریں گی، لیکن امکان ہے کہ تعلقات اور سرمایہ کاری مزید خفیہ ہو جائیں گے اور موجودہ صورتحال برقرار رہے گی۔
مغربی میڈیا کی جانب سے غزہ جنگ کے حقائق کو مسخ کرنے کی کوششوں کے باوجود فلسطینی مزاحمت کے خلاف میڈیا کا پروپیگنڈا ناکام رہا ہے؟
مجھے یقین ہے کہ سیل فون کیمروں اور سائبر اسپیس نے حقیقت کو چھپانا بہت مشکل بنا دیا ہے۔ تاہم شام کے خلاف گھناؤنی جنگ کے بارے میں مغربی میڈیا کا پروپیگنڈا اتنا اچھا کیوں کام کرتا ہے؟ مجھے یقین نہیں ہے، لیکن شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی لوگ فلسطینی تحریک سے زیادہ واقف ہیں، اور دوسری طرف، وہ شام کے جغرافیائی سیاسی کردار سے کم واقف ہیں۔