سچ خبریں:سعودی عرب کے ساتھ مغربی ممالک کے تعلقات نے ثابت کر دیا ہے کہ انسانی حقوق کے ان کے نعرے کھوکھلے ہیں۔
سعودی عرب کے ساتھ مغرب کے تعلقات نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ انسانی حقوق اور آزادی اظہار رائے کے حوالے سے مغربی تہذیب کے تمام نعرے اور اصول جھوٹے ہیں کیونکہ جب یہ ان مغربی حکومتوں کی سرحدوں سے باہر جاتے ہیں تو وہ اپنے معنی مکمل طور پر کھو بیٹھتے ہیں۔
چند دن پیچھے جا کر سعودی عرب میں ہونے والے وحشیانہ قتل عام کو یاد کر لینا کافی ہے، جس میں ایک ہی دن میں 81 افراد کے سر قلم کر دیے گئے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے 2011 اور 2012 میں آل سعود حکومت کے امتیازی سلوک کے خلاف پرامن مظاہروں میں حصہ لیا تھا۔
عالمی رائے عامہ انتظار کر رہی تھی کہ مغربی ممالک اپنے نعروں کی بنیاد پر اس وحشیانہ قتل عام کی مذمت کریں، لیکن انہوں نے صرف برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کا دورہ سعودی عرب دیکھا جس کا مقصد روسی پابندیوں کے سائے میں تیل کی سپلائی میں کمی کی تلافی کے مقصد سے سعودی تیل کی پیداوار میں اضافے پر بات چیت کرنا تھا۔
جانسن کے دورہ سعودی عرب سے ظاہر ہوا کہ مغرب کے نزدیک غیر مغربی آدمی کی قدر تیل کی قیمت سے بہت کم ہے، انھوں نے سعودی عرب میں 81 افراد کے قتل کو یکسر نظر انداز کر دیا، لیکن انھیں سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل اب بھی یاد ہے، صرف اس لیے کہ وہ ایک مغربی اخبار کے لیے کام کرتے تھے!
جانسن کے سفر نے ثابت کر دیا کہ مغرب اپنے مفادات کے لیے کسی سے بھی سمجھوتہ کرنے کو تیار ہے، چاہے اس کے ہاتھ 81 معصوم لوگوں کے خون سے رنگے ہی کیوں نہ ہوں، جن میں سے ایک بچہ بھی تھا، مغربی تہذیب وہ تہذیب ہے جس نے دنیا کو اپنے مفادات کے لیے انسانوں کو قتل کرنا اور ان مفادات کے لیے کسی بھی چیز حتیٰ کہ انسانیت کی تجارت کرنا سکھایا۔