سچ خبریں:تجزیہ کاروں کاکہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور ترکی کے تعلقات کو بہتر بنانے کے فیصلےکی حقیقت کو کئی زاویوں سے جانچا جا سکتا ہے۔
ترکی اور متحدہ عرب امارات کئی دہائیوں کے اختلافات اور تناؤ کے بعد حالیہ مہینوں میں ایک دوسرے کے قریب ہونے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں،تاہم یہ اس وقت فیصلہ کیوں کیا گیا ہے اور اس کوشش کو آگے کیسے بڑھایا جائے،یہ اس سلسلے میں ایک اہم ترین مسئلہ ہے جس پر غور کیا جانا چاہیے، متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زائد آل نہیان کا دورہ انقرہ اور ترک صدر رجب طیب اردگان سے ان کی ملاقات نے علاقائی تعلقات میں ایک مشکل ترین پہیلی میں تبدیلی کی نشاندہی کی۔
یادرہے کہ 2011 میں عرب دنیا میں احتجاج شروع ہونے کے بعد سے، دونوں ممالک تیل کی دولت سے مالا مال خلیج فارس سے لے کر ہارن آف افریقہ تک پورے خطے میں اثر و رسوخ کے لیے کوشاں ہیں،تاہم دونوں کے تعلقات اس وقت خراب ہوئے جب ترکی اور قطر نے خلیج فارس کے اتحادی انقرہ، متحدہ عرب امارات کی بادشاہت اور اس کے اہم اتحادی سعودی عرب کو علاقائی استحکام اور غلبہ کے لیے خطرہ قرار دیا جبکہ دونوں ممالک لیبیا کی خانہ جنگی میں مخالف فریقوں کے ذریعہ مداخلت کرتے رہے۔
واضح رہے کہ 2013 میں مصر میں پیش آنے والی صورتحال میں دونوں ممالک کے موقف مختلف تھے نیز ترکی یمن کے خلاف سعودی اور متحدہ عرب امارات کی جنگ کے اہم ناقدین میں سے ایک تھاجبکہ متحدہ عرب امارات نے اردگان کے متعدد مخالفین کو پناہ دی، اور ترکی نے 2017 میں سعودی اور متحدہ عرب امارات کے قطر کے محاصرے کے جواب میں، قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک فوجی اڈے پر فوج بھیجنے میں تیزی کی۔
لیکن آخر میں قطر کے محاصرے نے ترکی اور متحدہ عرب امارات کے درمیان مفاہمت کی راہ پر کچھ روشنی ڈالی۔