سچ خبریں:فرانسیسی شہریوں نےاس ملک میں اسلام دشمنی میں اضافے کے خلاف احتجاج کیا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنی آج کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ فرانسیسی شہریوں نےاس ملک میں مذہبی آزادی پر پابندیوں کے خلاف منصوبے پر احتجاج کیا، اس منصوبے کے تحت فرانسیسی حکومت ایک ایسا قانون نافذ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے تحت مسلمانوں کو مشتبہ افراد قرار دے کر ان پر پابندی لگانے اور کچھ مذہبی آزادیوں کو محدود کرنا ہے، فرانسیسی قانون سازوں نے گذشتہ منگل کو اس بل کو پیش کیا تھا اور امید کی جارہی ہے کہ دونوں پارلیمنٹ اس کو منظوری دے دیں گی۔
واضح رہے کہ ایمانوئل میکرون کی سربراہی میں موجودہ فرانسیسی حکومت نے اپنے مؤقف پر استدلال کیا ہے کہ یہ قانون ضروری ہے اور یہ صنفی مساوات اور سیکولرازم کے لئے فرانس کی اقدار کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، تاہم مظاہرین ان الزامات کی مخالفت کرتے ہیں اور یہ استدلال کرتے ہیں کہ فرانس کے پاس پہلے ہی ایسے قانونی آلات موجود ہیں ،مزید قونین صرف مذہبی پابندیوں کا سبب ہی بنیں گے، کچھ لوگ آئندہ سال کے دور صدارت میں قدامت پسند ووٹرز کو اکٹھا کرنے کے لئے میکرون کے اس قانون کو ایک چال کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
یادرہے کہ پیرس کے مضافات میں مظاہرین نے فرانسیسی تاریخ کے ایک استاد کے سر قلم کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے ، صحافیوں کو بتایا کہ ایک واقعہ کی وجہ سے سب کو ایک نظر سے دیکھنا کہاں کا انصاف ہے،واضح رہے کہ آج کے مظاہرے میں تقریبا 150 مسلمان اور غیر مسلم نے حصہ لیا۔
یادرہے کہ رواں سال نومبر میں فرانسیسی میڈیا نے پیرس شہر میں سرد ہتھیار سے حملے کی اطلاع دی تھی جس میں چاقو کے وار سے مارا جانے والا شخص تاریخ کا استاد تھا جس نے پیغمبر اکرم ؐ کی توہین کی اور کلاس میں ان کے کارٹون بنائے، واقعے کا ملزم ایک 18 سالہ چیچن نوجوان تھا جس کا تعلق انتہا پسند گروپوں سے تھا جسے پولیس نے ہلاک کردیا، پیرس میں ایک استاد کے قتل کے تناظر میں میکرون نے اسلام کو پوری دنیا میں بحران کا شکار مذہب قرار دیتے ہوئے بے بنیاد بیانات دیئے تھے اور کہا تھا کہ ان کی حکومت سخت سیکولر پالیسیاں اپنائے گی۔
وسیع پیمانے پر مذمت کے باوجود ، فرانسیسی صدر پہلے بھی اپنے خوفناک بیانات کو دہرا چکے ہیں، اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں میکرون کے تبصرے پر اسلامی ممالک کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا جس میں فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔